ڈنمارک میں ’برقعہ بین‘، سینکڑوں شہریوں کا احتجاجی مارچ
2 اگست 2018
ڈنمارک میں پورے چہرے کے پردے پر پابندی کے خلاف سینکڑوں ڈینش شہریوں نے احتجاجی مارچ کیا ہے۔ ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور ایک مذہبی اقلیت کو ہدف بنایا گیا ہے۔
اشتہار
قریب تیرہ سو مظاہرین نے بدھ کے روز کوپن ہیگن اور ڈنمارک کے دوسرے بڑے شہر آہوس میں چہرے کے پردے اور برقعے پر پابندی کے خلاف مارچ کیا۔ یہ پابندی ایک متنازعہ قانون کے ذریعے ڈنمارک میں یکم اگست سے نافذ کی گئی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنان اور ناقدین نے بھی ڈینش حکومت کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قانون کے ذریعے مسلمانوں کو غیر منصفانہ طور پر ہدف بنایا گیا ہے اور مہاجرین مخالف جذبات کو ابھارا گیا ہے۔
احتجاج کرنے والے افراد نے خواتین کے حقوق کی ’خلاف ورزی‘ پر حکومت کی مذمت کی۔ ان کا موقف تھا کہ حکومت خواتین کو پابند نہیں کر سکتی کہ وہ کس طرح کا لباس پہن سکتی ہیں اور کس طرح کا نہیں۔
کوپن ہیگن میں ہوئے اس احتجاجی مظاہرے کی دلچسپ بات یہ تھی کہ تمام مظاہرین برقعوں میں ملبوس تھے اور انہوں نے اپنی آنکھوں کے سوا تمام چہرے کو بھی چھپا رکھا تھا۔
مظاہرین نے احتجاج کا آغاز دارالحکومت کوپن ہیگن کے وسطی ضلع نوریبرو سے کیا اور پھر مضافاتی علاقے میں واقع بیلا ہوگ پولیس اسٹیشن تک آئے جہاں انسانی ہاتھوں کی ایک زنجیر بھی بنائی گئی۔ ان مظاہرین میں مسلمان اور غیر مسلم ڈینش شہری شامل تھے۔
اکیس سالہ ڈینش طالبہ سبینا جو خود بھی نقاب پہنے ہوئی تھیں اور اپنا پورا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھیں، نے روئٹرز کو بتایا،’’ ہم حکومت کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم امتیازی رویوں اور ایسے قانون کے سامنے نہیں جھکیں گے جو بالخصوص ایک مذہبی اقلیت کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔‘‘
ڈنمارک کی پانچ اعشاریہ سات ملین آبادی کا پانچ فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سبینا بھی ڈنمارک میں رہنے والی ان مسلم خواتین میں سے ایک ہیں جو برقعے اور نقاب پر عائد پابندی کے حالیہ قانون سے متاثر ہوئی ہیں۔ اس قانون کے تحت پولیس عوامی مقامات پر خواتین سے نقاب اتروانے کی مجاز ہو گی۔
قانون کی پہلی بار خلاف ورزی کرنے پر خواتین کو ایک ہزار ڈینش کرونے جو 160 امریکی ڈالر کے برابر بنتے ہیں، اور بار بار اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کو 10 ہزار کرونے یا 1600 امریکی ڈالر کے برابر تک بطور جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
ڈنمارک نے اپنے ہاں عوامی مقامات پر برقعے اور نقاب کے استعمال پر پابندی کا قانون رواں برس مئی میں منظور کیا تھا۔ تاہم اس قانونی مسودے کی منظوری کے بعد ڈینش حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس پابندی کا ہدف کوئی مذہب نہیں ہے۔
ص ح / ع ب / روئٹرز
برقعہ اور نقاب کن یورپی اور مسلم ممالک میں ممنوع ہے؟
ہالینڈ میں یکم اگست سے چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ کچھ دیگر یورپی ممالک پہلے ہی اسی طرح کے اقدامات اٹھا چکے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ مسلم ممالک نے بھی برقع پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Kelly
چودہ برسوں کی طویل بحث
چودہ برسوں کی طویل بحث کے بعد آخر کار یکم اگست سن دو ہزار انیس سے ہالینڈ میں خواتین کے برقعے یا چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی کے متنازعہ قانون پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔ گزشتہ جون میں ڈچ قانون سازوں نے اس قانون کی منظوری دی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Lampen
فرانس، نقاب پر پابندی لگانے والا پہلا ملک
فرانس وہ پہلا یورپی ملک ہے جس نے عوامی مقامات پر خواتین کے برقعہ پہننے اور نقاب کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ پیرس حکومت نے یہ بین اپریل سن 2011 سے لگا رکھا ہے۔ اس پابندی سے پردہ کرنے والی قریب دو ہزار مسلم خواتین متاثر ہوئی تھیں۔
تصویر: dapd
بیلجیم میں بھی پردہ ممنوع
فرانس کے نقاب اور برقعے کی ممانعت کے صرف تین ماہ بعد جولائی سن 2011 میں بیلجیم نے بھی پردے کے ذریعے چہرہ چھپانے پر پابندی لگا دی۔ بیلجیم کے قانون میں چہرہ چھپانے والی خواتین کو نقد جرمانے سمیت سات دن تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
آسٹریا میں نقاب پر پابندی کے قانون کی منظوری
خواتین کے نقاب پر پابندی کا قانون آسٹریا میں سن 2017 اکتوبر میں منظور کیا گیا۔ اس قانون کی رُو سے عوامی مقامات میں چہرے کو واضح طور پر نظر آنا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
پردے پر پابندی بلغاریہ میں بھی لیکن استثنا کے ساتھ
ہالینڈ کی طرح بلغاریہ نے بھی چہرہ چھپانے پر پابندی سن 2016 میں عائد کی تھی۔ خلاف ورزی کرنے والی خاتون کو ساڑھے سات سو یورو تک کا جرمانہ بھرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم عبادت گاہوں، کھیل کے مقامات اور دفاتر میں اس پابندی سے استثنا حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sabawoon
ڈنمارک بھی
ڈنمارک میں چہرہ چھپانے اور برقعے پر پابندی یکم اگست سن 2018 سے نافذالعمل ہوئی۔ گزشتہ برس مئی میں ڈینش پارلیمان نے اس قانون کو اکثریت سے منظور کیا تھا۔ اس قانونی مسودے کی منظوری کے بعد ڈینش حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس پابندی کا ہدف کوئی مذہب نہیں ہے۔
تصویر: Grips Theater/David Balzer
شمالی افریقی ملک مراکش میں پابندی
مراکش نے2017 میں برقع یا چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے والے ملبوسات کی پروڈکشن پر پابندی عائد کی تھی۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بتائے گئے تھے۔ تب حکومت کا کہنا تھا کہ ڈاکو اپنی مجرمانہ کارروائیوں کے لیے پردے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ اس لباس پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن حکومت کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/W. G. Allgoewer
چاڈ میں برقع پر پابندی
افریقی ملک چاڈ میں جون سن دو ہزار پندرہ میں ہوئے دوہرے خود کش حملوں کے بعد مکمل چہرے کے پردے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ تب حکومت نے کہا تھا کہ شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے جنگجوؤں نے ان حملوں کو کامیاب بنانے کے لیے پردے کو بہانہ بنایا تھا۔ اس ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
تیونس میں سکیورٹی تحفظات
تیونس میں جون سن دو ہزار انیس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ملکی صدر نے چہرے کو مکمل طور پر ڈھاانپنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس مسلم ملک میں اس پابندی کی وجہ سکیورٹی تحفظات بنے تھے۔
تصویر: Taieb Kadri
تاجکستان، کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں
وسطی ایشیائی ملک تاجکستان میں ستمبر سن دو ہزار سترہ میں پہلے سے موجود ایک قانون میں ترمیم کے ذریعے مقامی ملبوسات کو فروغ دینے پر زور دیا گیا تھا۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں اس قانون کے تحت چہرے کا مکمل پردہ یا برقع ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ تاہم اس قانون کی خلاف ورزی پر کوئی سزا یا جرمانہ نہیں رکھا گیا تھا۔