ڈنمارک: ’نفرت پھیلانے والے‘ چھ غیر ملکی مبلغین پر پابندی
2 مئی 2017ڈنمارک کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ قدم نفرت انگیز تقریروں کو روکنے اور امن عامہ کو خلل سے بچانے کے لیے اٹھایا گیا ہے اور اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے یا پھر تین سال تک کی سزائے قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس حکم کے نفاذ کی ذمہ داری ملک کی امیگریشن سروس کو سونپی گئی ہے۔
جو چھ مبلغین اگلے دو سال تک ڈنمارک میں داخل نہیں ہو سکیں گے، اُن میں کینیڈا، سعودی عرب، شام اور امریکا سے تعلق رکھنے والے پانچ مسلمان مبلغین کے ساتھ ساتھ متنازعہ امریکی پادری ٹیری جونز بھی شامل ہے، جس نے سن 2011ء میں قرآن مجید کے نسخے جلا دیے تھے۔
اس پابندی کے حوالے سے تفصیلات کا اعلان کرتے ہوئے ڈنمارک کی خاتون وزیر برائے مہاجرت اور انضمام اِنگر سٹوئے برگ نے کہا:’’مجھے خوشی ہے کہ اب یہ بات سب پر واضح ہو گئی ہے کہ ان لوگوں کو ڈنمارک میں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔‘‘
انہوں نے اس فہرست میں شامل چھ افراد کو ’نفرت پھیلانے والے‘ ایسے انتہا پسند مذہبی مبلغین قرار دیا، جو اُن کے بقول ’ہماری جمہوریت کے ساتھ ساتھ آزادی اور انسانی حقوق جیسی ہماری بنیادی قدروں کو بھی کھوکھلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘۔
ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا ان چھ میں سے کسی مبلغ نے حالیہ برسوں میں ڈنمارک کا دورہ بھی کیا تھا۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے البتہ اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی امام کمال المکّی ماضی میں اسکنڈے نیویا کے اس ملک میں جا چکا ہے جبکہ کینیڈا کا مسلمان عالم بلال فلپس سن 2011ء میں ڈنمارک کے سفر پر گیا تھا۔
چھ مبلغین کی اس فہرست کی تیاری کا محرک خفیہ کیمرے سے بنائی گئی فروری سن 2016ء کی وہ دستاویزی ویڈیو فلم بنی، جس میں ایک انتہا پسند امام کو ڈنمارک کی ایک مسجد میں اپنی تقریر میں یہ کہتے دکھایا گیا تھا کہ بدکاری کے مرتکب افراد کو سنگسار کر دیا جانا چاہیے۔
اس دستاویزی فلم کے نشر ہونے کے بعد ڈنمارک میں اس موضوع پر ایک وسیع تر بحث شروع ہو گئی تھی کہ کیسے متوازی معاشروں کو وجود میں آنے سے روکا جا سکتا ہے اور کیسے مذہبی انتہا پسندی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
جس قانون کے تحت یہ ’پبلک نیشنل لسٹ‘ جاری کی گئی ہے، اُس کی منظوری دسمبر 2016ء میں دائیں بازو کی حکومت اور اپوزیشن سوشل ڈیموکریٹس دونوں کی حمایت کے ساتھ عمل میں آئی تھی۔
ڈنمارک اس طرح کی قانون سازی کرنے والا پہلا یورپی ملک نہیں ہے۔ برطانیہ میں بھی ایسے افراد کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے، جو جرائم کے مرتکب ہونے پر سزا یافتہ ہوں یا جن کی موجودگی ’عوامی مفاد میں نہ ہو‘۔