ڈنمارک: اسلحہ کیس میں بھارت کی حوالگی کی درخواست مسترد
30 اگست 2024ڈنمارک میں ہل روڈ ڈسٹرکٹ کی ایک عدالت نے جمعرات کے روز ڈنمارک کے شہری نیلز ہولک کے مقدمے کے حوالے سے بھارت کی حوالگی کی درخواست کو مسترد کر دی۔
بھارتی حکومت کا الزام ہے کہ 62 سالہ نیلز ہولک ایک دہشت گرد ہے، جنہوں نے سن 1995 میں ریاست مغربی بنگال کے باغیوں کو سرکاری افواج سے لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کیے تھے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا جرمنی سمیت تین یورپی ملکوں کا دورہ
عدالت صرف اس بات کی سماعت کر رہی تھی کہ آیا ان کی حوالگی صحیح ہوگی یا نہیں اور اس نے اس معاملے میں جرم یا بے گناہی پر کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔
ڈینش خاتون سے زیادتی، بھارت میں پانچ افراد مجرم قرار
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بھارت میں ان کے ساتھ یورپی کنونشن سے متعلق انسانی حقوق کے خلاف ورزیاں ہوں گی اور اس مناسبت سے ہولک کو بھارت کے حوالے کرنے سے ڈنمارک کے حوالگی ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہو گی۔
نئی دہلی میں ایک اور غیر ملکی خاتون سے اجتماعی زیادتی
دفاعی وکیل جوناس کرسٹوفرسن نے عدالت کو بتایا کہ بھارت نے اس حوالے سے جو ضمانتیں فراہم کی ہیں وہ قطعی درست نہیں ہیں۔ استغاثہ کے پاس اب فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے تین دن مزید ہیں۔
گرفتاری سے بچنے والے واحد شخص
اس سے قبل ہولک نے بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں چار ٹن ہتھیار پیراشوٹ سے گرانے کا اعتراف کیا تھا، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ مقامی کمیونسٹ حکام کے خلاف دفاع کے لیے لوگوں کو اس کی ضرورت تھی۔
مغربی بنگال کے ضلع پرولیا میں ہتھیار گرانے کا کام ایک روسی کارگو طیارے سے کیا گيا تھا، جو بلغاریہ سے ہتھیار لے کر آيا تھا۔ ہولک اس طیارے کے وہ واحد مسافر تھے، جو روسی کارگو طیارے سے اس وقت بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے، جب اسے بھارتی فضائیہ نے روکا۔
اس میں سوار چھ دیگر یورپی شہریوں کو پکڑ لیا گیا تھا، جن پر مقدمہ چلایا گیا اور انہیں جیل کی سزا ہوئی۔ بعد میں انہیں رہا بھی کر دیا گیا۔
نئی دہلی کا دعویٰ ہے کہ ہولک، جو اس وقت اپنے ایک اور نام کم ڈیوی سے معروف تھے، اس منصوبے کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ ہولک بھارت سے کسی طرح نیپال پہنچے اور پھر سن 1996 میں وہ نیپال سے ڈنمارک فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
بھارت شدت سے چاہتا ہے کہ ہولک کے خلاف مقدمہ یہیں چلایا جائے۔ نئی دہلی نے صرف ان کے لیے ایک نئی حراستی جیل تعمیر کرنے کا بھی وعدہ کیا اور ڈنمارک کی پولیس کو بطور مبصر کے ان کے ساتھ رہنے کی اجازت دینے کی بھی بات کہی تھی۔ تاہم عدالت نے کہا کہ نئی دہلی کے وعدوں کے باوجود ان کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
ہولک کو سن 2010 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب ڈنمارک کے حکام نے حوالگی کے حوالے سے بھارت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں اس بات کی ضمانت بھی شامل تھی کہ انہیں موت کی سزا نہیں دی جائے گی اور وہ کسی بھی سزا کو بھارتی جیل کے بجائے ڈنمارک میں کاٹ سکتے ہیں۔
البتہ ڈنمارک کی ایک ضلعی عدالت نے سن 2011 میں ان کے ساتھ بدسلوکی کے خوف کے مد نظر اس معاہدے کو کالعدم کر دیا تھا۔ پھر بعد میں اسی سال ایک اپیل کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا۔
بھارت نے سن 2016 میں دوبارہ ہولک کی حوالگی کی درخواست کی۔ واضح رہے کہ اس کیس کی وجہ سے ڈنمارک اور بھارت کے تعلقات برسوں سے کشیدہ رہے ہیں۔
دفاعی وکیل کو آسان زندگی کی امید
ہولک کے وکیل جوناس کرسٹوفرسن کا کہنا ہے کہ وہ "فیصلے سے بہت مطمئن" ہیں لیکن امکان ہے کہ استغاثہ دوبارہ اس کے خلاف اپیل کرے گا۔
انہوں نے اعتماد کا اظہار کیا کہ ڈنمارک کا عدالتی نظام ان کے حق میں تین الگ الگ فیصلوں کے بعد ہولک کی حفاظت کرے گا۔
کرسٹوفرسن نے کہا کہ "انہیں امید ہے کہ اب یہ کیس بند ہو جائے گا اور یہ کہ ایک بار ڈنمارک کے قانونی نظام سے گزرنے کے بعد یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ انہیں کبھی بھی بھارت کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔"
انہوں نے کہا، "وہ اپنی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن وہ سفر نہیں کر سکتے۔ ان کی زندگی ڈنمارک تک محدود ہے لیکن یہ ان پر ایک بوجھ ہے۔ 28 سالوں سے انہیں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے دہشت گرد کہا جا رہا ہے۔"
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)