ڈنمارک نے امریکا کے لیے انگیلا میرکل کی جاسوسی کی: رپورٹ
31 مئی 2021
امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے لیے ڈنمارک سیکرٹ سروس کے ذریعہ جرمن سیاست دانوں کی جاسوسی کرنے کا انکشاف ایک مشترکہ یورپی میڈیا تفتیش میں ہوا ہے۔
اشتہار
ڈنمارک سیکرٹ سروس نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور صدر فرینک والٹر شٹائن مائرسمیت متعدد یورپی رہنماوں کی جاسوسی کرنے میں امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کی مدد کی تھی۔ یہ انکشاف یورپی میڈیا کی جانب سے اتوار کے روز شائع ایک تفتیشی رپورٹ میں ہوا ہے۔
یوں تو امریکا کی جانب سے اپنے اتحادیوں کی جاسوسی کا معاملہ سن 2013 میں ہی سامنے آ یا تھا لیکن صحافیوں کو اب جا کر ڈینش ڈیفنس انٹلیجنس سروس (ایف ای) کے ذریعہ این ایس اے کوجاسوسی میں مدد کرنے کی رپورٹوں کی تفصیلات تک رسائی ہو سکی ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ جرمنی کے قریبی اتحادی نے جرمن چانسلر اور صدر کی جاسوسی کرنے میں امریکا کا تعاون کیا تھا۔
رپورٹ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس وقت جرمن چانسلر کے عہدے کے امیدوار ایس پی ڈی پارٹی کے پیر اسٹین بروک کی بھی جاسوسی کی گئی تھی۔
سیکرٹ سروس کے ذرائع نے یہ معلومات ڈینش، سویڈش اور نارویجیئن براڈکاسٹروں (بالترتیب ڈی آر، ایس وی ٹی اور این آر کے) کی ایک ٹیم کے علاوہ فرانسیسی اخبارLe Monde، جرمن اخبار Suddeutsche Zeitung اور جرمن پبلک براڈکاسٹروں این ڈی آر اور ڈبلیو ڈی آر کو بھی فراہم کی ہیں۔
جرمن حکام کا ردعمل
اسٹین بروک نے تحقیقاتی ٹیم کے جرمن اراکین سے بات کرتے ہوئے کہا”سیاسی لحاظ سے میں اسے ایک اسکینڈل سمجھتا ہوں۔" ان کا کہنا تھا کہ گوکہ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مغربی ملکوں کی انٹلیجنس سروسز کو اپنا کام کرنے کی ضرورت ہے تاہم ڈینش حکام نے اپنے اتحادیوں کی جس طرح جاسوسی کی اس سے یہ بات واضح ہے کہ ”یہ سب کچھ وہ صرف اپنی مرضی سے کر رہے تھے۔"
اشتہار
جرمن چانسلر کے ایک ترجمان نے بتایا کہ انگیلا میرکل کو ان انکشافات کی اطلاع دے دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈینش حکومت کے حکام کی جانب سے جاسوسی کی سرگرمیوں کے بارے میں میرکل یا شٹائن مائر کو ”کسی طرح کا کوئی علم" نہیں تھا۔
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
8 تصاویر1 | 8
این ایس اے کی مدد پر ڈنمارک حکومت نے کیا کیا؟
ڈنمارک حکومت کو سن 2015 میں ہی یہ معلوم ہو گیا تھا کہ ان کے ملک کی سیکرٹ سروس این ایس اے کے اسکینڈل میں ملوث ہے۔
این ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق ان کے پاس جو شواہد ہیں ان سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ ڈینش ڈیفنس انٹلیجنس سروس (ایف ای) نے سویڈن، ناروے، نیدرلینڈ، فرانس اور جرمنی کے اہم سیاست دانوں کی جاسوسی کرنے میں این ایس اے کی مدد کی تھی۔
ڈینش انٹلی جنس نے امریکی ایجنسی کو ڈینش وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ کے علاوہ ڈنمارک کی اسلحہ ساز کمپنیوں کی جاسوسی کرنے میں بھی مدد کی۔ حتی کہ ایف ای نے این ایس اے کو خود امریکی حکومت کے خلاف جاسوسی کرنے میں بھی تعاون کیا۔
دونوں ملکوں کی انٹلی جنس سروسز کے درمیان جاسوسی میں اتنے بڑے پیمانے پر تعاون کا پتہ چلنے کے بعد ڈنمار ک کی حکومت نے سن 2020 میں ایف ای کی پوری قیادت کو برطرف کر دیا تھا۔
ڈینش جاسوسوں نے این ایس اے کی مدد کیوں کی؟
سیکرٹ سروس کے ایک ڈینش ماہر تھامس ویگینر فریس کا خیال ہے کہ ایف ای کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ کس عالمی پارٹنر کے ساتھ سب سے زیادہ قریبی تعاون اور مل کر کا م کرسکتی ہے۔ انہوں نے این ڈی آر سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا''انہوں نے واضح طورپر یورپی شرکائے کار کے بجائے امریکیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔"
این ایس اے جاسوسی اسکینڈل کی تفتیش کرنے والی جرمن پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ پیٹرک سینس برگ کا کہنا ہے کہ اس انکشاف سے انہیں حیرت نہیں ہوئی ہے۔ میرکل کی کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی کے قانون سازوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ سیکرٹ سروسز کے لیے سب سے اہم کیا چیز ہوتی ہے۔
انہوں نے این ڈی آر سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”یہ دوستی نہیں ہوتی، نہ ہی یہ کوئی اخلاقی معاملہ ہوتا ہے بلکہ یہ تو مفادات کی بات ہوتی ہے۔"
امریکا کی این ایس اے، ایف ای اور ڈینش وزارت دفاع نے اس انکشاف پر ردعمل کی درخواستوں کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ البتہ وزارت دفاع کی طر ف سے جاری کردہ ایک عمومی بیان میں کہا گیا ہے”قریبی اتحادیوں کی منظم جاسوسی نا قابل قبول ہے۔"
(الیکس بیری) ج ا/ ص ز
مشہور رقاصہ اور ’ڈبل ایجنٹ‘ ماتا ہری کون تھیں؟
مشہور ڈچ رقاصہ اور ’جاسوسہ‘ مارگریٹا سیلے کی سزائے موت پر عملدرآمد کو سو برس بیت گئے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمنی کے لیے جاسوسی کے الزام میں اس فنکارہ کو فرانسیسی فائرنگ اسکواڈ نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
’آنکھیں بند نہیں کرنا‘
اپنے نیم عریاں رقص کے باعث مشہور ہونے والی فنکارہ ماتا ہری کو اکتالیس برس کی عمر میں سزائے موت دی گئی تھی۔ اپنے فن اور فیشن کے ذوق کے باعث وہ پاپولر کلچر میں آج بھی زندہ ہیں۔ سو برس قبل پندرہ اکتوبر سن 1917 کو جب انہیں فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا گیا تھا تو انہوں نے شوٹنگ سے قبل اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے انکار کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/maxppp
بزنس مین کی بیٹی
مارگریٹا سیلے ایک ڈچ بزنس مین کی بیٹی تھیں۔ انہوں نے اپنی نوجوانی میں اپنی عمر سے کافی بڑے ایک فوجی افسر سے شادی کی تھی لیکن جلد انہیں احساس ہو گیا کہ وہ اسے زیادہ دیر نہیں چلا سکتیں۔ تب سن 1903 میں وہ رشتہ ازداوج کو توڑتے ہوئے (انڈونیشیا سے) فرانس چلی گئیں۔ اس وقت ان کی عمر صرف ستائیس برس تھی۔
تصویر: picture-alliance/Heritage-Image
خالی ہاتھ فرانس میں
جب خوبرو مارگریٹا پیرس پہنچیں تو ان کے ہاتھ بالکل خالی تھے۔ تب انہوں نے ایک کلب میں نیم برہنہ رقص کرنا شروع کیا اور اپنا نام بدل کر ماتا ہری رکھ لیا۔ جلد ہی وہ مشہور ہو گئیں اور یورپ بھر میں ان کا چرچا ہو گیا۔ انیس سو دس کی دہائی میں وہ بطور فنکارہ ایک معروف شخصیت کا روپ دھار چکی تھیں۔
واشنگٹن ٹائمز نے سن دو ہزار سات میں لکھا تھا، ’’اپنے وقت میں وہ میڈونا کی طرح مشہور و معروف تھیں۔‘‘ اپنی خوبصورتی اور اداؤں سے انہوں نے اس وقت کے بڑے بڑے فوجی افسران اور سفارتکاروں سے تعلقات قائم کر لیے تھے۔ تب انہیں مال و زر کی کوئی فکر نہیں رہی تھی۔
تصویر: Getty Images
’دلربا معشوق‘
پندرہ اکتوبر سن انیس سو سترہ میں جب ماتا ہری کو جرمن افواج کے لیے جاسوسی کے الزام میں فرانس میں سزائے موت سنائی گئی تھی تو یورپ بھر میں مقتدر حلقے انہیں جانتے تھے۔ کہا جتا ہے کہ ہالینڈ، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر یورپی ممالک میں وہ دلربا کے نام سے مشہور تھیں۔
تصویر: picture-alliance/United Archiv
جسم فروشی پر مجبور
سن انیس سو چودہ میں البتہ ان کی شہرت کچھ مانند پڑ گئی تھی۔ اس زمانے میں وہ پیرس میں ایک کال گرل کے طور پر کام کرنا شروع ہو گئی تھیں۔ ان کا کام تب وزراء اور دیگر بڑی شخصیات کی جنسی ہوس کو پورا کرنا ہی رہ گیا تھا۔ اب ان کے پاس مال و دولت بھی کم ہو گئی تھی۔ آرام و آسائش سے زندگی گزارنے والی ماتا ہری کے لیے یہ ایک بڑی تکلیف دہ بات تھی۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
جاسوسی کا آغاز
سن انیس سو سولہ میں ماتا ہری نے رقوم کی خاطر فرانس کی جاسوسی کرنے کی حامی بھری۔ تب ایک جرمن سفارتکار نے انہیں پیشکش کی تھی کہ اگر وہ فرانسیسی راز جرمن حکومت کو فراہم کریں گی تو ان کے تمام قرضہ جات ادا کر دیے جائیں گے۔ ماتا ہری کے لیے اس مشکل وقت میں اور کیا راستہ ہو سکتا تھا؟
تصویر: picture-alliance/akg-images
’ڈبل ایجنٹ‘
بعد ازاں ماتا ہری نے فرانسیسی خفیہ ایجنسیوں کو پیشکش کر دی کہ وہ ان کے لیے بھی جاسوسی کا کام کر سکتی ہیں۔ اس وقت فرانسیسی حکام کو پہلے سے شبہ ہو چکا تھا کہ یہ خوبرو خاتون جرمنوں کے لیے جاسوسی کر رہی ہے۔ اس کے باوجود فرانسیسی خفیہ اداروں نے انہیں کئی مشن دیے لیکن اس دوران ماتا ہری کی نگرانی جاری رہی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
شک یقین میں بدل گیا
فرانسیسی خفیہ اداروں کا شک اس وقت یقین میں بدلا، جب ماتا ہری نے پہلی عالمی جنگ کے دوران فیٹل کے مشرقی محاذ پر جانے کی درخواست کی۔ اس وقت وہاں ایک نیا فوجی ہوائی اڈہ تعمیر کیا جا رہا تھا۔ ماتا ہری کے مطابق وہ وہاں اپنے ایک روسی فوجی دوست سے ملنے جانا چاہتی تھی۔
جنوری سن انیس سو سترہ میں فرانسیسی حکام کو یقین ہو گیا کہ ماتا ہری جرمن فوج کے لیے جاسوسی کر رہی ہے۔ جرمن فوج نے ماتا ہری کا نام ایجنٹ H21 رکھا ہوا تھا۔ تب ہری کو ڈبل ایجنٹ ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں پچیس جولائی سن انیس سو سترہ کو سزائے موت سنائی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ پندرہ اکتوبر سن انیس سو سترہ کو جب سزائے موت پر عملدرآمد کی خاطر ماتا ہری کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کیا گیا تو انہوں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے انکار کر دیا اور شوٹنگ سے پہلے انہوں نے فائرنگ اسکواڈ کی طرف ’فلائینگ کس‘ بھی کیے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
پاپولر کلچر
ماتا ہری کی زندگی پر ادب بھی تخلیق کیا گیا اور کئی فلمیں بھی بنائی گئیں۔ تحقیقات کے بعد ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ماتا ہری نے ڈبل ایجنٹ کے طور پر جرمن اور فرانسیسی افواج کو کیا کیا معلومات فراہم کی تھیں۔ اب بھی کئی حلقے ماتا ہری کو بے قصور قرار دیتے ہیں۔