ڈنمارک نے جرمنی سے متصل اپنی قومی سرحد پر ڈیڑھ میٹر بلند متنازعہ باڑ کی تنصیب کا کام مکمل کر لیا ہے۔ ڈنمارک کے مطابق باڑ کا مقصد جرمنی سے جنگلی سؤروں کی آمد روک کر سؤروں کی ملکی صنعت کو سوائن بخار کے وائرس سے بچانا ہے۔
اشتہار
جرمنی اور ڈنمارک کے مابین سرحد پر اس منتازعہ باڑ کی تنصیب کا کام پیر دو دسمبر کے روز مکمل ہوا۔ ڈنمارک کا کہنا ہے کہ اس باڑ کا مقصد جرمنی سے جنگلی سؤروں کی ڈنمارک آمد کو روکنا ہے تاکہ ملکی پورک انڈسٹری کو سوائن فیور کے وائرس سے محفوظ رکھا جا سکے۔
ڈنمارک میں پانچ ہزار سے زائد فارموں سے سالانہ اٹھائیس ملین سؤر برآمد کیے جاتے ہیں جو کہ ملک کی مجموعی زرعی صنعت کے نصف اور مجموعی برآمدات کے پانچ فیصد کے برابر بنتا ہے۔
باڑ کی تنصیب متنازعہ کیوں؟
باڑوں کی طاقت
یورپی یونین خار دار تاروں اور دیواروں میں گھرتی جا رہی ہے۔ یورپ کے مختلف ممالک کی جانب سے سرحدوں پر خار دار باڑیں لگانا ایک رواج سا بنتا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں ایسی ہی کچھ باڑوں اور دیواروں کی تصاویر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
شینگن زون محدود ہوتا ہوا
شینگن زون ایک آزاد سفری معاہدہ بھی ہے۔ اس معاہدے میں شامل ممالک کی سرحدوں پر سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنا منع ہے۔ ہنگری کی حکومت نے سربیا کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ نصب کی اور ساتھ ہی یورپی یونین کے رکن ملک کروشیا سے ملنے والی اپنی سرحد کو بھی بند کر دیا حالانکہ ہنگری شینگن زون میں شامل ہے۔ یونان پہنچنے والے زیادہ تر مہاجرین مغربی بلقان کے راستے آسٹریا اور جرمنی آنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/V. Tesija
یورپ کا بیرونی علاقہ ’میلِیا‘
شمالی مراکش میں ’میلِیا‘ نامی علاقہ اسپین کے انتظام میں ہے۔ اسے دنیا کی جدید ترین سرحد بھی کہا جاتا ہے۔ بالکل ’سیئوٹا‘ نامی علاقے کی طرح، یہاں بھی چھ میٹر اونچی اور دس کلومیٹر طویل دیوار کے ذریعے اسپین کی حدود کو مراکش سے الگ کیا گیا ہے۔ یہاں پر نیٹو کی خار دار تاریں استعمال کی گئی ہیں جبکہ انفراریڈ کیمروں کے علاوہ حرکت اور آواز کو پہچاننے والے آلات بھی نصب ہیں۔
تصویر: Getty Images
منقسم جزیرہ
قبرص کے منقسم جزیرے کا شمالی حصہ ترک اور جنوبی حصہ یونانی ہے۔ ان دونوں علاقوں کے مابین ایک ’گرین لائن‘ یا سبز لکیر قائم ہے، جو خار دار تاروں، بچی کھچی چیزوں اور ٹوٹی ہوئی دیواروں کے ٹکڑوں کو استعمال میں لاتے ہوئے تعمیر کی گئی ہے۔ یہ 180 کلومیٹر طویل ہے اور کئی سو فوجی اس کی حفاظت پر مامور ہیں۔ دیوار برلن کے انہدام کے بعد نکوسیا دنیا کا آخری منقسم دارالحکومت ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Hackenberg
امریکا اور میکسیکو کے مابین ’دیوار ٹورٹیا‘
ٹورٹیا میکسیکو میں شوق سے کھائی جانے والی ایک ڈش ہے۔ امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر قائم اس دیوار کو بھی اسی وجہ سے اس ڈش نے منسوب کیا گیا ہے۔ قریب بیس ہزار امریکی پولیس اہلکار اور رینجرز تقریباً ساڑھے گیارہ سو کلومیٹر طویل اس دیوار کی نگرانی کرتے ہیں۔ منشیات کی اسمگلنگ اور غیر قانونی ترک وطن کو روکنے کے لیے یہاں بھی انتہائی جدید آلات استعمال کیے جاتے ہیں۔
تصویر: dpa
مقدس سرزمین بھی تقسیم
اسرائیلی اور فلسطینی علاقوں میں صرف چند مخصوص حفاظتی چوکیوں کے ذریعے ہی داخل ہوا جا سکتا ہے۔ اس دیوار کا مقصد اسرائیلی علاقوں کو فلسطینیوں کے حملوں سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ تاہم تمام تر نگرانی اور کڑے اقدامات کے باوجود بھی غزہ پٹی کے فلسطینی اسلحہ اور دیگر ہتھیار خود اپنی بنائی ہوئی سرنگوں کے ذریعے اسمگل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Landov
دونوں کوریاؤں کے مابین ’غیر فوجی علاقہ‘
جنوبی اور شمالی کوریا کے مابین اس علاقے کو دنیا میں سب سے مضبوط اور کڑی نگرانی والی سرحد کہا جاتا ہے۔ یہاں پر ایک ملین سے زیادہ بارودی سرنگیں نصب ہیں اور ساتھ ہی خار دار تاروں کا بھی بے تحاشا استعمال کیا گیا ہے جبکہ نگرانی کے لیے متعدد چوکیاں بھی قائم ہیں۔ 248 کلومیٹر طویل اس دیوار کے دونوں طرف دو کلومیٹر کے برابر ایک ’غیر فوجی علاقہ‘ بھی موجود ہے، جس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
آئرلینڈ کی دیوار امن
کیتھولک شمالی آئرلینڈ اور پروٹسٹنٹ جنوبی آئرلینڈ کے درمیان تقریباً 48 امن کی قطاریں یا Peace Lines موجود ہیں۔ بیلفاسٹ میں سات میٹر اونچی دیوار موجود ہے، جو کنکریٹ اور خار دار تاروں سے بنائی گئی ہے۔ اس دیوار کو پیدل اور گاڑی کے ذریعے پار کیا جا سکتا ہے تاہم رات کے وقت تمام گزر گاہیں بند کر دی جاتی ہیں۔
تصویر: Peter Geoghegan
وہ اسے ’حفاظتی دیوار‘ کہتے ہیں
یہ کسی بھی دو ملکوں کی سرحدوں پر تعمیر کی جانے والی طویل ترین باڑ ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد کو تقریباً چار ہزار کلومیٹر خار دار تار بچھا کر الگ کیا گیا ہے۔ اس کی اونچائی تقریباً دو میٹر ہے جبکہ کئی مقامات پر اس میں سے بجلی بھی گزرتی ہے۔ قریب پچاس ہزار فوجی اس سرحد کی نگرانی کرتے ہیں۔
تصویر: S. Rahman/Getty Images
’دیوار برلن ‘ تقسیم کی علامت
ایک طویل عرصے تک ’موت کی پٹی‘ کے نام سے مشہور دیوار برلن نو نومبر 1989ء کو گرا دی گئی۔ اس دیوار کے گرنے کے بعد دوسری عالمی جنگ کے بعد دو حصوں میں بٹ جانے والا جرمنی دوبارہ متحد ہو گیا اور سرد جنگ کا خاتمہ بھی ممکن ہوا۔ تاہم اس دوران رونما ہونے والے تاریخی واقعات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
9 تصاویر1 | 9
دونوں ممالک کے مابین سرحد پر 1.5 میٹر بلند باڑ نصب کی گئی ہے اور اس پر 11 ملین یورو خرچ ہوئے ہیں۔ یہ باڑ مشرق میں بحیرہ وادن سے لے کر مغرب میں فلینزبرگ تک پوری سرحد پر نصب کی گئی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ڈنمارک کی حکومت نے ایک ایسے معاملے پر اتنا خرچہ کیا ہے جو وجود ہی نہیں رکھتا۔ تحفظ ماحولیات کے لیے سرگرم کارکنوں نے بھی باڑ کی تنصیب سے ماحولیات پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کے باعث تنقید کی ہے۔ ایسے ناقدین کے مطابق باڑ سے ایسے پرندوں اور جانوروں کی نقل و حرکت اور زندگی بھی متاثر ہو گی، جنہیں یورپی قوانین کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
دوسری جانب یہ باڑ ڈنمارک کی دائیں بازو کی جماعتوں کے لیے پناہ گزینوں کو روکنے کے حوالے سے بھی علامتی حیثیت رکھتی ہے۔
ڈنمارک آزادانہ نقل و حرکت کے یورپی معاہدے شینگن کا حصہ بھی ہے۔ اس لیے ٹرینوں کے ٹریکس اور سڑکوں پر یہ باڑ نصب نہیں کی جا سکتی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان راستوں سے جنگلی سؤر پھر بھی ڈنمارک کی حدود میں داخل ہو سکتے ہیں، اس لیے یہ باڑ کارآمد ثابت نہیں ہو گی۔
جنگلی حیات کی نقل و حرکت کے امور میں مہارت رکھنے والے لکھاری ہانس کرسٹینسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جنگلی سؤر مشرقی ساحلی سرحدی علاقے میں تو پائے جاتے ہیں لیکن مغربی حصے میں ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''مسئلہ یہ ہے کہ اس کام کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی، اس لیے یہ باڑ بے کار ثابت ہو گی۔‘‘
دائیں بازو کی جماعتوں کے لیے باڑ کی علامتی حیثیت
ناقدین کا کہنا ہے کہ سوائن فیور کے پھیلاؤ کا خطرہ جنگلی سؤروں کی نقل و حرکت سے نہیں بلکہ وائرس سے متاثرہ جانوروں اور خوراک کی ٹرکوں کے ذریعے نقل و حرکت سے ہے۔
اس لیے باڑ کی تنصیب کو محض علامتی اقدام قرار دیا جا رہا ہے اور ناقدین کے مطابق حکومت نے باڑ کی تنصیب کے ذریعے ملک کی طاقت ور زرعی انڈسٹری اور دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے شہریوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
ڈنمارک کی دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت پیپلز پارٹی نے یورپ میں مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد کے بعد جرمنی سے متصل سرحد کو خار دار باڑ لگا کر بند کر دینے کی تجویز بھی دی تھی۔
جرمنی میں تو سوائن فیور کا وائرس ہے ہی نہیں
سوائن فیور جانوروں کے لیے مہلک ہے لیکن اس سے انسانوں کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ سائنس دانوں نے خبردار کر رکھا ہے کہ دنیا میں ایک چوتھائی سؤر اس سوائن فیور سے ہلاک ہو سکتے ہیں، لیکن زیادہ خطرہ ایشیائی ممالک میں ہے۔
پولینڈ، ایسٹونیا، لیٹویا اور لیتھوانیا جیسے یورپی ممالک میں سوائن فیور کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
تاہم جرمنی میں ابھی تک سوائن بخار کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا۔ اس لیے سوائن فیور کو باڑ کی تنصیب کی وجہ کے طور پر پیش کیے جانے پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔
چیز ونٹر (ش ح / م م)
’میکسیکو باڑ یا ٹرمپ کی دیوار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو سے ملنے والی امریکی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ ہو گا۔ کئی سالوں سے اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/J. L. Gonzalez
ٹرمپ کا تجربہ
اپنی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا، ’’اپنی جنوبی سرحد پر میں ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتا ہوں اور کوئی بھی مجھ سے بہتر دیواریں نہیں بنا سکتا۔ میں اس دیوار کی تعمیر کے اخراجات میکسیکو سے حاصل کروں گا۔‘‘ بہرحال ابھی تک انہوں نے اونچی عمارتین اور ہوٹل ہی بنائے ہیں۔ ٹرمپ کے تارکین وطن سے متعلق دس نکاتی منصوبے میں اس دیوار کی تعمیر کو اوّلین ترجیح حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Torres
کام جاری ہے
امریکا اور میکسیکو کے مابین سرحد تقریباً تین ہزار دو سو کلومیٹر طویل ہے۔ ان میں سے گیارہ سو کلومیٹر پر پہلے ہی باڑ لگائی جا چکی ہے۔ یہ سرحد چار امریکی اور میکسیکو کی چھ ریاستوں کے درمیان سے گزرتی ہے۔ دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ریاست نیو میکسیکو میں اس باڑ کی تعمیر کا کام ادھورا ہی رہ گیا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
حالات کے ہاتھوں مجبور
غیر قانونی طریقوں سے میکسیکو سے امریکا میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سالانہ بنتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق میکسیکو سے ہی ہوتا ہے۔ میکسیکو کے شہریوں کو بہت ہی کم امریکی ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک بہتر زندگی کا خواب لے کر امریکا آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Zepeda
باڑ کی وجہ سے تقسیم
یہ خاندان باڑ کی وجہ سے تقسیم ہیں تاہم ایک دوسرے مصافحہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے ان لوگوں کے جلد ہی ایک دوسرے سے ملنے کے امکانات بھی تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/J. West
تعصب
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا،’’میکسیکو اپنے اُن شہریوں کو ادھر بھیجتا ہے، جو کسی کام کے نہیں اور نا ہی ان میں کوئی قابلیت ہے۔ یہاں مسائل کا شکار میکسیکن ہی آتے ہیں، جو منشیات فروش اور جرائم پیشہ ہونے کے علاوہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔‘‘ ٹرمپ ایسے تمام جرائم پیشہ افراد کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Bull
ریگستان، سرحد اور واپسی
میکسیکو کے بہت سے شہریوں کے لیے امریکا کا سفر اس باڑ پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ کچھ کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے جبکہ کچھ اس سرحد کو پار کرنے کی قیمت اپنی جان سے چکاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ سرحدی محافظین کی جانب سے میکسیکو میں فائرنگ کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ ایک ایسے واقعے میں میکسیکو کے چھ ایسے شہری ہلاک ہو گئے تھے، جو سرحد پار نہیں کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: Reuters/D.A. Garcia
اپنا محافظ خود
یہ ایک امریکی کاشتکار جم چلٹن ہے، جو اس بندوق کے ساتھ اپنی زمین کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس کا دو لاکھ مربع میٹر پر محیط یہ فارم میکسیکو کی سرحد کے پاس جنوب مشرقی ایریزونا میں واقع ہے۔ یہاں پر صرف یہ خار دار تار ہی لگی ہے۔ جم چلٹن خود ہی اپنا محافظ ہے اور اس دوران اسے کئی مرتبہ اپنی یہ شاٹ گن اٹھانی پڑی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F.J. Brown
عجب انداز میں اختتام
عام بول چال میں اس تقریباً ساڑھے بائیس کلومیٹر طویل باڑ کو ’تورتیا وال‘ کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ ’تورتیا‘ میکسیکو کی ایک مخصوص قسم کی ایک روٹی کو کہا جاتا ہے۔ یہ باڑ سان ڈیاگو (کیلی فورنیا) اور بحرالکاہل کے درمیان نصب کی گئی ہے۔