1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈنمارک نے جرمنی سے متصل سرحد پر باڑ نصب کر دی

2 دسمبر 2019

ڈنمارک نے جرمنی سے متصل اپنی قومی سرحد پر ڈیڑھ میٹر بلند متنازعہ باڑ کی تنصیب کا کام مکمل کر لیا ہے۔ ڈنمارک کے مطابق باڑ کا مقصد جرمنی سے جنگلی سؤروں کی آمد روک کر سؤروں کی ملکی صنعت کو سوائن بخار کے وائرس سے بچانا ہے۔

Dänemark Deutschland l Wildschweinzaun an dänischer Grenze
تصویر: picture alliance/dpa/F. Molter

جرمنی اور ڈنمارک کے مابین سرحد پر اس منتازعہ باڑ کی تنصیب کا کام پیر دو دسمبر کے روز مکمل ہوا۔ ڈنمارک کا کہنا ہے کہ اس باڑ کا مقصد جرمنی سے جنگلی سؤروں کی ڈنمارک آمد کو روکنا ہے تاکہ ملکی پورک انڈسٹری کو سوائن فیور کے وائرس سے محفوظ رکھا جا سکے۔

ڈنمارک میں پانچ ہزار سے زائد فارموں سے سالانہ اٹھائیس ملین سؤر برآمد کیے جاتے ہیں جو کہ ملک کی مجموعی زرعی صنعت کے نصف اور مجموعی برآمدات کے پانچ فیصد کے برابر بنتا ہے۔

باڑ کی تنصیب متنازعہ کیوں؟

دونوں ممالک کے مابین سرحد پر 1.5 میٹر بلند باڑ نصب کی گئی ہے اور اس پر 11 ملین یورو خرچ ہوئے ہیں۔ یہ باڑ مشرق میں بحیرہ وادن سے لے کر مغرب میں فلینزبرگ تک پوری سرحد پر نصب کی گئی ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ڈنمارک کی حکومت نے ایک ایسے معاملے پر اتنا خرچہ کیا ہے جو وجود ہی نہیں رکھتا۔ تحفظ ماحولیات کے لیے سرگرم کارکنوں نے بھی باڑ کی تنصیب سے ماحولیات پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کے باعث تنقید کی ہے۔ ایسے ناقدین کے مطابق باڑ سے ایسے پرندوں اور جانوروں کی نقل و حرکت اور زندگی بھی متاثر ہو گی، جنہیں یورپی قوانین کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

دوسری جانب یہ باڑ ڈنمارک کی دائیں بازو کی جماعتوں کے لیے پناہ گزینوں کو روکنے کے حوالے سے بھی علامتی حیثیت رکھتی ہے۔

جرمنی میں آگ کے سبب سینکڑوں سور ہلاک

باڑ کارآمد ہو گی؟

یہ باڑ مکمل سرحد پر نصب کی گئی ہے

ڈنمارک آزادانہ نقل و حرکت کے یورپی معاہدے شینگن کا حصہ بھی ہے۔ اس لیے ٹرینوں کے ٹریکس اور سڑکوں پر یہ باڑ نصب نہیں کی جا سکتی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان راستوں سے جنگلی سؤر پھر بھی ڈنمارک کی حدود میں داخل ہو سکتے ہیں، اس لیے یہ باڑ کارآمد ثابت نہیں ہو گی۔

جنگلی حیات کی نقل و حرکت کے امور میں مہارت رکھنے والے لکھاری ہانس کرسٹینسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جنگلی سؤر مشرقی ساحلی سرحدی علاقے میں تو پائے جاتے ہیں لیکن مغربی حصے میں ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''مسئلہ یہ ہے کہ اس کام کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی، اس لیے یہ باڑ بے کار ثابت ہو گی۔‘‘

دائیں بازو کی جماعتوں کے لیے باڑ کی علامتی حیثیت

ناقدین کا کہنا ہے کہ سوائن فیور کے پھیلاؤ کا خطرہ جنگلی سؤروں کی نقل و حرکت سے نہیں بلکہ وائرس سے متاثرہ جانوروں اور خوراک کی ٹرکوں کے ذریعے نقل و حرکت سے ہے۔

ناقدین کے مطابق باڑ جنگلی سؤر کی نقل و حرکت نہیں روک پائے گیتصویر: picture-alliance/blickwinkel/S. Meyers

اس لیے باڑ کی تنصیب کو محض علامتی اقدام قرار دیا جا رہا ہے اور ناقدین کے مطابق حکومت نے باڑ کی تنصیب کے ذریعے ملک کی طاقت ور زرعی انڈسٹری اور دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے شہریوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

ڈنمارک کی دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت پیپلز پارٹی نے یورپ میں مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد کے بعد جرمنی سے متصل سرحد کو خار دار باڑ لگا کر بند کر دینے کی تجویز بھی دی تھی۔

جرمنی میں تو سوائن فیور کا وائرس ہے ہی نہیں

سوائن فیور جانوروں کے لیے مہلک ہے لیکن اس سے انسانوں کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ سائنس دانوں نے خبردار کر رکھا ہے کہ دنیا میں ایک چوتھائی سؤر اس سوائن فیور سے ہلاک ہو سکتے ہیں، لیکن زیادہ خطرہ ایشیائی ممالک میں ہے۔

سوائن فلو ایک عالمی وبا بن سکتا ہے: عالمی ادارہ صحت

پولینڈ، ایسٹونیا، لیٹویا اور لیتھوانیا جیسے یورپی ممالک میں سوائن فیور کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

تاہم جرمنی میں ابھی تک سوائن بخار کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا۔ اس لیے سوائن فیور کو باڑ کی تنصیب کی وجہ کے طور پر پیش کیے جانے پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔

چیز ونٹر (ش ح / م م)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں