فوج کی تعیناتی کے بعد جرمنی سے ڈنمارک جانے والے مسافروں کا استقبال آئندہ ہاتھوں میں بندوقیں لیے ڈنمارک کی فوج کے اہلکار کریں گے۔ یورپی یونین کی نئی تجاویز کے مطابق بارڈر کنٹرول کی مدت بڑھائی جا سکتی ہے۔
کوپن ہیگن حکومت نے جرمنی سے متصل سرحد پر جمعہ انتیس ستمبر کی شب فوجی تعینات کر دیے۔ یورپ میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد ڈنمارک نے جرمن سرحد پر جنوری سن 2016 سے بارڈر کنٹرول متعارف کرا رکھا تھا تاہم اب یہ فوجی اہلکار ڈینش چیک پوسٹوں پر پولیس کی معاونت کریں گے۔ ڈنمارک کی سرحد پر واقع جرمن صوبے شلیسوِگ ہولسٹائن اور فلینسبرگ شہر کے مابین سرحد پر جرمن پولیس کی چوکیاں بدستور فعال ہیں۔
کوپن ہیگن حکام نے فوج کی تعیناتی کے حوالے سے بتایا ہے کہ بارڈر کنٹرول بدستور پولیس کے ہاتھ میں رہے گا جب کہ فوج پس منظر میں رہتے ہوئے پولیس کو معاونت فراہم کرے گی۔ مسلح فوج کے اہلکار براہ راست جرمنی سے ڈنمارک آنے والی گاڑیوں کی تلاشی نہیں لیں گے۔ ڈینش حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج کا کام مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر دوسرے مقامات پر منتقل کرنا اور سرحدوں کی نگرانی کرنا ہو گا۔ ابتدائی طور پر فوجیوں کی تعیناتی تین ماہ کے لیے کی گئی ہے۔ جرمنی سے فیری کے ذریعے ڈنمارک جانے والے آبی راستوں پر فوج تعینات نہیں کی گئی۔
جرمنی کا احتجاج
جرمن وفاقی ریاست شلیسوِگ ہولسٹائن کے وزیر اعلیٰ ڈینیئل گُنتھر نے کوپن ہیگن میں ڈنمارک کے وزیر اعظم لارس لوکے راسموسن سے ملاقات کے دوران بارڈر کنٹرول کے حوالے سے گفتگو کی۔ گُنتھر کا کہنا تھا، ’’ہم نہیں چاہتے کہ (بارڈر کنٹرول) ایک مستقل سلسلہ بن جائے۔‘‘
کیا شینگن زون کا خواب ٹوٹ کر بکھر جائے گا؟
02:06
This browser does not support the video element.
صوبے کے دیگر سیاست دانوں نے بھی وزیر اعلیٰ کے بیان کی تائید کی ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی سیاست دان بیرٹے پاؤلس نے ہیمبرگ کے ایک مقامی اخبار سے کی گئی اپنی گفتگو میں کہا، ’’بارڈر کنٹرول متحدہ یورپ کے لیے سود مند نہیں اور مشتبہ افراد تو ایسی جگہوں سے بھی سرحد پار کر سکتے ہیں جہاں فوجی تعینات نہیں ہیں۔‘‘
بارڈر کنٹرول کی مدت میں توسیع
رواں ہفتے کے آغاز میں یورپی کمیشن نے تجویز پیش کی تھی کہ یونین کے رکن ممالک سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ملکی سرحدوں پر عارضی طور پر متعارف کرائے گئے بارڈ کنٹرول کی مدت میں توسیع کر سکتے ہیں۔ یورپی یونین کے قیام کے بعد نقل و حرکت کی آزادی اس خطے کی اہم ترین خصوصیت تصور جاتی ہے۔
جرمنی، آسٹریا، ڈنمارک اور ناروے کی سرحدوں پر متعارف کردہ بارڈر کنٹرول کی معیاد نومبر میں ختم ہو جائے گی۔ عارضی سرحدی نگرانی زیادہ سے زیادہ دو برس تک متعارف کرائی جا سکتی ہے لیکن یورپی کمیشن کی تجویز کے مطابق نومبر میں دو برس پورے ہو جانے کے بعد بھی سکیورٹی وجوہات کی بنا پر بارڈر کنٹرول مزید ایک سال کے لیے بڑھایا جا سکتا ہے۔
Denmark introduces controls at German border
01:00
This browser does not support the video element.
کوپن ہیگن میں فوجی دستے تعینات
ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں یہودی عبادت گاہ اور اسرائیلی سفارت خانے کی حفاظت کے لیے بھی فوجی تعینات کر دیے گئے ہیں۔ فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل اسٹین ڈالسگارڈ نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ کوپن ہیگن میں فوجیوں کی تعیناتی مارچ سن 2018 تک کے لیے کی گئی ہے۔ ترجمان کے مطابق یہ فوجی انتہائی ماہر اور جدید تربیت یافتہ ہیں۔
سن 2015 کے بعد ڈنمارک کے دارالحکومت میں یہودی عبادت خانے اور سفارت خانے پر دو پرتشدد حملے کیے جا چکے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ کوپن ہیگن میں فوجیوں کی تعیناتی کی گئی ہے۔
بہت سے یورپی ملکوں کے دارالحکومت معاشی سرگرمیوں کے اہم مراکز بھی ہیں۔ کولون کے انسٹیٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ (IW) نے ایک جائزہ مرتب کیا ہے کہ ان دارالحکومتوں کی کمائی کے بغیر ان ممالک میں فی کس آمدنی کتنی رہ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
برلن پر انحصار؟
جرمنی کا دارالحکومت برلن ایک استشنیٰ ہے۔ IW کے حساب کتاب کے مطابق برلن کو اگر نکال دیا جائے تو جرمنی میں فی کس آمدنی 0.2 فیصد بڑھ جائے گی۔ دیوار برلن گرائے جانے کے بعد سے اس شہر میں نئی صنعتیں تو لگی ہیں مگر روزگار کے مواقع زیادہ نہیں بڑھ پائے۔ یہاں بے روزگاری کی شرح مجموعی قومی اوسط سے زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/chromorange
پیرس، فرانس کا دل
فرانس میں صورتحال مختلف ہے۔ پیرس ہر لحاظ سے اس ملک کا دل ہے۔ Total, Renault اور Axa جیسی بڑی کمپنیوں کے ہیڈکوارٹرز اس شہر یا اس کے قریب واقع ہیں۔ پیرس سیاحوں کے لیے بھی ایک مقناطیس کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ اس کے ارد گرد کا علاقہ صنعتی طور پر انتہائی مستحکم ہے۔ پیرس کے بغیر فرانس میں فی کس آمدنی 15 فیصد کم ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images
ناگزیر لندن
برطانیہ بھی اپنے دارالحکومت لندن کے بغیر کافی غریب ہو جائے گا، یعنی قریب 11 فیصد۔ نیویارک کے علاوہ لندن کا مالیاتی شعبہ دنیا میں اہم ترین گردانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ریئل اسٹیٹ اور آئی ٹی کے شعبے اس شہر کو معاشی حوالے سے بھی انتہائی اہم بناتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایتھنز، یونانی معیشت کا ستون
یونان کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی دارالحکومت ایتھنز میں آباد ہے۔ دارالحکومت کے گرد ونواح کا علاقہ بہت سی کمپنیوں کا گڑھ ہے جبکہ یہاں شپ یارڈز اور ٹیکنالوجی کی بھی کئی کمپنیاں موجود ہیں۔ ایتھنز ہزاروں برسوں سے یونانی تہذیب کا مرکز ہے۔ آج اس کے بغیر یونانی کی فی کس آمدنی 20 فیصد تک کم ہو جائے گی۔
تصویر: Reuters/C. Hartmann
بیلجیم برسلز کے بغیر؟
دارالحکومت برسلز بیلجیم کے تین حصوں میں سے سب سے چھوٹا علاقہ ہے مگر معاشی اعتبار سے اہم ترین مرکز ہے۔ اگر برسلز کو نکال دیا جائے تو بیلجیم کی فی کس آمدنی نو فیصد تک کم ہو جائے گی۔ برسلز کی 90 فیصد معیشت کا دار و مدار سروس سیکٹر پر ہے۔ اس شہر میں یورپی یونین کے کئی ادارے اور نیٹو کے ہیڈکوارٹرز بھی موجود ہیں، جن کی وجہ سے یہاں معاشی سرگرمی کافی زیادہ رہتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
تمام راستے روم کو جاتے ہیں
روم کے بغیر اٹلی میں فی کس آمدنی صرف دو فیصد کم ہو گی۔ یہ شہر پبلک سیکٹر کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے جبکہ سیاحت کا بھی اہم مرکز ہے۔ مگر زیادہ تر اطالوی صنعتیں ملک کے شمال میں واقع ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Hahn
کوپن ہیگن: چھوٹی جل پری کا گھر
اس کے علاوہ ڈنمارک کا دارالحکومت دنیا کی سب سے بڑی بحری مال بردار کمپنی Maersk اور کارلسبرگ کا آبائی شہر بھی ہے، جو ایک بہت بڑی بیئر کمپنی ہے۔ یہاں کئی کیمیکل اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے ہیڈکوارٹرز بھی ہیں۔ ڈنمارک کی زیادہ تر صنعت بھی دارالحکومت کے گرد ونواح میں ہی قائم ہے۔ IW کے مطابق اگر کوپن ہیگن کو نکال دیا جائے تو ڈنمارک میں فی کس آمدنی 13 فیصد کم ہو جائے گی۔