’ڈوبتا ہوا جکارتہ‘: نیا انڈونیشی دارالحکومت جزیرہ بورنیو پر
26 اگست 2019
انڈونیشی صدر ویدودو کے مطابق ملکی دارالحکومت آئندہ بورنیو کے جزیرے پر منتقل کر دیا جائے گا۔ اس فیصلے کی وجہ بہت زیادہ آبادی والے جکارتہ کا ’مسلسل ڈوبتے جانا‘ ہے۔ ملکی دارالحکومت کی منتقلی پر تینتیس ارب ڈالر لاگت آئے گی۔
اشتہار
دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو نے اس بارے میں پہلی مرتبہ تفصیلات منظر عام پر لاتے ہوئے پیر چھبیس اگست کو اعلان کیا کہ بے شمار جزائر پر مشتمل اس ریاست کا دارالحکومت آئندہ جکارتہ سے بورنیو کے جزیرے پر منتقل کر دیا جائے گا اور اس منصوبے پر مجموعی طور پر 33 بلین ڈالر (29.7 بلین یورو) کے برابر لاگت آئے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملکی دارالحکومت کی منتقلی کا یہ عمل 2024ء میں شروع کر دیا جائے گا۔
صدر ویدودو نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دارالحکومت جکارتہ کی آبادی نہ صرف بہت زیادہ ہو چکی ہے بلکہ یہ شہر آہستہ آہستہ 'ڈوبتا‘ بھی جا رہا ہے۔ اس کے برعکس نیا دارالحکومت بورنیو کے جزیرے پر قائم کیا جائے گا، جہاں وہ ایک طرف تو اسٹریٹیجک حوالے سے ملک کے تقریباﹰ وسط میں واقع ہو گا اور دوسرے یہ کہ وہ بڑھتی ہوئی آبادی والے شہری علاقے سے زیادہ دور بھی نہیں ہو گا۔
صدر ویدودو کے مطابق، ''نیا ملکی دارالحکومت بورنیو جزیرے پر صوبے مشرقی کالیمانتان میں سامارندا کے شہر اور بندرگاہی شہر بالیک پاپن کے درمیان میں واقع ہو گا۔‘‘
دارالحکومت کی منتقلی کے اس بہت مہنگے منصوبے کے لیے انڈونیشی ریاست، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور نجی شعبہ مشترکہ سرمایہ کاری کی صورت میں مالی وسائل مہیا کریں گے۔
صدر ویدودو نے اسی ماہ کے اوائل میں یہ تجویز پہلی بار پیش کی تھی کہ دارالحکومت آئندہ جکارتہ سے جزیرہ بورنیو پر کالیمانتان صوبے میں منتقل کیا جانا چاہیے تاہم تب حکام نے یہ وضاحت نہیں کی تھی کہ یہ نیا شہر جغرافیائی طور پر اس صوبے میں کہاں بسایا جائے گا۔
جکارتہ سے منتقلی کی وجوہات
انڈونیشیا کے موجودہ دارالحکومت جکارتہ کی آبادی اس وقت تقریباﹰ 10 ملین ہے۔ اگر اس شہر کے مضافاتی اور نواحی علاقوں کو بھی شامل کیا جائے تو یہ آبادی 30 ملین بنتی ہے۔ یہ شہر جاوا کے جزیرے پر واقع ہے۔ جاوا تجارت کا ایک بڑا مرکز بھی ہے، جس کا ملک کی مجموعی اقتصادی پیداوار میں حصہ 58 فیصد بنتا ہے۔ اس کے علاوہ انڈونیشیا کی 260 ملین کی آبادی کا تقریباﹰ نصف حصہ بھی اسی جزیرے پر آباد ہے۔
جکارتہ کی ایک اور منفی بات یہ بھی ہے کہ وہاں اکثر سیلاب آتے رہتے ہیں اور وہ زیر زمین پانی کے بے تحاشا استعمال کے باعث زمین میں دھنستا بھی جا رہا ہے، جس کے لیے ماہرین اس شہر کے مسلسل 'ڈوبتے جانے‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جاوا کے جزیرے پر آتش فشاں پہاڑوں کے پھٹنے اور تباہ کن سونامی لہروں کا خطرہ بھی کافی زیادہ ہوتا ہے۔
ماحول پسندوں کی طرف سے تنقید
صدر جوکو ویدودو کے اس اعلان کے بعد ماحول پسندوں نے ان کے اس فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی دارالحکومت کو جکارتہ سے بورنیو کے جزیرے پر منتقل کرنے سے اس جزیرے پر پائے جانے والے وسیع تر جنگلات اور وہاں معدوم ہو جانے کے خطرات کا شکار جنگلی حیات کے تحفظ کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔
صدر ویدودو کے مطابق وہ ریاستی دارالحکومت کی جکارتہ سے صوبے مشرقی کالیمانتان میں منتقلی کے اپنے فیصلے کی منظوری کے لیے ایک مسودہ قانون جلد ہی ملکی پارلیمان میں پیش کر دیں گے۔
م م / ع ا / روئٹرز، ڈی پی اے
بہترین دارالحکومت کی تلاش
انڈونیشی حکومت عرصے سے ملکی دارالحکومت جکارتہ سے باہر منتقل کرنا چاہتی ہے۔ جکارتہ میں ٹریفک مستقل بدنظم رہتی ہے اور یہ شہر سمندر میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ اسے سے قبل کئی ممالک اپنے دارالحکومت دوسرے شہروں میں منتقل کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/B. Ismoyo
نائجیریا، گرمی سے فرار
کئی ملین کی آبادی والا شہر لاگوس 1991ء تک نائجیریا کا دارالحکومت تھا۔ لیکن اس شہر کی آبادی اس کی بساط سے بہت زیادہ ہو چکی ہے، وہاں کا ماحول بہت گرم اور حبس کا شکار ہے اور ٹریفک کا نظام تو ’قاتلانہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ نیا دارالحکومت آبوجہ، دائیں، لاگوس سے 300 کلومیٹر دور اور کافی اونچائی پر واقع ہے، جہاں آب و ہوا بھی بہت بہتر ہے۔
کینبرا، ایک مصالحتی حل
انیسویں صدی میں آسٹریلیا کے دو سب سے بڑے شہروں سڈنی اور میلبورن کے درمیان مقابلہ اس بارے میں تھا کہ ملکی دارالحکومت کس شہر کو ہونا چاہیے۔ لیکن حکومت نے اس مسئلے کا ایک مصالحتی حل نکالا تھا اور ملک کے جنوب مشرق میں واقع کینبرا کو نیا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ کینبرا سڈنی اور میلبورن کے تقریباﹰ درمیان میں واقع ہے۔
تصویر: picture-alliance
برازیلیہ، کامیاب منتقلی
داخلی سطح پر طویل مذاکرات کے بعد 1960ء میں برازیلیہ، تصویر میں دائیں، کو ریو ڈی جنیرو کے بجائے برازیل کا نیا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کی وجہ بھی یہی تھی کہ ریو کی آبادی بہت زیادہ ہو چکی تھی اور یہ شہر ملک کے بالکل ایک سرے پر واقع تھا۔ یہ منصوبہ اتنا کامیاب رہا تھا کہ اسے بعد میں کئی دیگر ممالک نے اپنے اپنے دارالحکومت دوسرے شہروں میں منتقل کرنے کے لیے ایک مثال بنا لیا تھا۔
میانمار، ایک عظیم تر منصوبہ
2005ء میں میانمار کا دارالحکومت ینگون سے ملک کے وسطی حصے میں واقع نیپیادیو میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ یوں فوجی حکمرانوں نے بھی اس ملک میں ہر دور میں نئے دارالحکومت کی بنیاد رکھنے کی روایت جاری رکھی۔ یہ شہر بہت بڑا ہے، رقبے میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے 70 گنا بڑا۔ وہاں کسی ایک سرکاری محکمے کی عمارت سے دوسری میں جانے کے لیے کبھی کبھی تو بالکل خالی سڑکوں پر تقریباﹰ آدھ گھنٹے تک سفر کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان، معشیت کے بجائے فوج
1959ء میں پاکستانی حکومت نے فیصلہ کیا کہ دارالحکومت کراچی، بائیں، سے اسلام آباد، دائیں، منتقل کر دیا جائے گا۔ اس کا ایک مقصد کراچی کے امیر طبقے کا ملکی سیاست پر اثر کم کرنا بھی تھا۔ اسلام آباد راولپنڈی کے قریب ایک جڑواں شہر کے طور پر بسایا گیا، جہاں ملکی فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرز بھی ہیں جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا متنازعہ اور منقسم خطہ بھی اسلام آباد سے زیادہ دور نہیں ہے۔
نور سلطان، ایک حکمران کی علامت
آستانہ، دائیں، بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت آباد کیا گیا تھا۔ اہم کاروباری مرکز الماتی، بائیں، سے دارالحکومت کی آستانہ منتقلی 1997ء میں عمل میں آئی اور اس شہر کا فیوچرسٹ نقشہ جاپانی ماہر تعمیرات کیشو کُوروکاوا نے تیار کیا تھا۔ 2019ء میں اس شہر کا نام بدل کر نور سلطان رکھ دیا گیا، جس کا مقصد سابق سربراہ مملکت اور طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے صدر نور سلطان نذربائیف کے لیے اظہار عقیدت تھا۔
ماسکو، پرانے دارالحکومت کا ظہور
بالشویک انقلاب کے نتیجے میں (سابق) سوویت یونین کے قیام کے بعد 1918ء میں روسی دارالحکومت بھی سینٹ پیٹرزبرگ سے ماسکو منتقل کر دیا گیا تھا۔ ماسکو اس سے بہت پہلے کے دور میں بھی روس کا دارالحکومت رہا تھا لیکن پھر زار پیٹر اعظم نے اپنی ریاست کا دارالحکومت ماسکو کے بجائے سینٹ پیٹرزبرگ کو بنا لیا تھا۔
جرمنی، دوبارہ اتحاد کا دارالحکومت
دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی تقسیم ہو گیا تھا۔ مغربی جرمن ریاست کا دارالحکومت بون، بائیں، تھا اور برلن، دائیں، مشرقی حصے پر مشتمل جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کا دارالحکومت۔ لیکن مغربی حصے پر مشتمل وفاقی جرمن ریاست کے آئین میں لکھا گیا تھا کہ جرمنی کا دوبارہ اتحاد ہوا، تو دارالحکومت پھر برلن ہی ہو گا۔ اسی لیے 1990ء میں دونوں جرمن ریاستوں کے اتحاد کے بعد متحدہ جرمنی کا دارالحکومت ایک بار پھر برلن ہی بنا۔