1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈومیلی کی چھپر فوڈ سٹریٹ: ’یہاں سے امرسے یورپ تک پہنچتے ہیں‘

28 جولائی 2024

جی ٹی روڈ پر دینہ سے گوجر خان جاتے ہوئے راستے میں ڈومیلی موڑ کا بورڈ نظر آتا ہے جس پر بائیں جانب مڑتے ہی روایتی مٹھائیوں کے کچے چھپر استقبال کرتے ہیں۔

ڈومیلی کے قریب چھپر سٹال پر بننے والے امرسے یورپ تک جاتے ہیں
ڈومیلی کے قریب چھپر سٹال پر بننے والے امرسے یورپ تک جاتے ہیںتصویر: Farooq Azam/DW

اگر جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے آپ شور شرابے سے دور، درختوں اور پرندوں کے سنگ تازہ جلیبی، امرسے، نمک پارے، پکوڑے، سموسے اور چائے سے خود کو تازہ دم کرنا چاہیں تو یہ مقام بہترین انتخاب ہو سکتا ہے۔

عام طور پر سڑک کنارے کھانے پینے کا انتظام ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں آس پاس مقامی آبادی یا پکنک پوائنٹ ہو۔ پھر ایسے فوڈ پوائنٹ بالکل سامنے یا نمایاں مقام پر ہوتے ہیں تاکہ ہر آتے جاتے کو نظر آئیں اور زیادہ سے زیادہ گاہک متوجہ ہوں۔

ڈومیلی موڑ کے یہ چھپر ان میں سے کسی شرط پر پورا نہیں اترتے۔ یہ مرکزی شاہراہ سے ہٹ کے اور کیکر کے درختوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ اشتہار بازی یا گاہکوں کو متوجہ کرنے کے قدیم و جدید ذرائع اختیار نہ کرنے کے باوجود یہ کامیابی سے چل رہے ہیں۔

’چائے دو روپے کپ اور جلیبی سولہ روپے کلو تھی‘

 لکڑی اور سرکنڈوں (جنگلی پودا جسے مقامی زبان میں 'کانا‘ کہا جاتا ہے) سے تیار کیے گئے یہ بارہ چھپر سڑک کنارے آمنے سامنے ہیں۔ ابلتے تیل میں پکوڑے تلتے ایک نوجوان سے ہم نے یہاں کی تاریخ جاننا چاہی تو اس نے سامنے والے چھپر میں بیٹھے ایک بزرگ کی طرف اشارہ کیا۔

بزرگ کا نام شبیر بٹ ہے جو ریڈیو سننے میں مصروف تھے۔

چھپر تب بنے جب قریب چھ دہائیوں قبل منگلا ڈیم کی تعمیر کے بعد جی ٹی روڈ کو وسیع کیا جا رہا تھاتصویر: Farooq Azam/DW

مسکراتے چہرے کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہتے ہوئے انہوں نے ریڈیو بند کر دیا اور ماضی کو کریدنے ہوئے کہنے لگے، ''میرے والد نذیر بٹ نے 1971 میں یہاں چائے کے کام سے آغاز کیا تھا۔ 1980 میں میٹرک کرنے کے بعد میں بھی ان کے ساتھ آ گیا اور آج تک یہیں ہوں۔‘‘

وہ مزید بتاتے ہیں، ”تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہمارا گاؤں 'سونڑ‘ ہے۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کے بعد جی ٹی روڈ کو وسیع کیا جا رہا تھا۔ قریب پہاڑ سے پتھر توڑنے والے مزدور دوپہر کا کھانا اپنے ساتھ لاتے لیکن ان کے پاس چائے کا بندوبست نہ تھا۔ تب میرے والد ڈومیلی میں مٹھائی تیار کرنے کی دکان پر کام سیکھ رہے تھے۔ ایک دن ایک مزدور نے انہوں مشورہ دیا اور وہ اپنے استاد کی اجازت سے جی ٹی روڈ پر چائے کا پھٹہ لگانے لگے۔"

وہ کہتے ہیں، ”مزدور ٹولیوں میں آتے، چائے پیتے اور دوبارہ اپنے کام میں لگ جاتے۔ آہستہ آہستہ چائے کی شفٹ ڈبل ہو گئی۔ جب وہ تین چار بجے دوبارہ آتے تو کہتے بھوک لگی ہے۔ اس طرح میرے والد نے چائے کے ساتھ جلیبی بھی شروع کر دی۔ تب چائے دو روپے کپ اور جلیبی سولہ روپے کلو تھی۔"

گڑ اور چاول سے تیار ہونے والی مٹھائی 'امرسے‘ یہاں کی پہچان کیسے بنی؟

شبیر بٹ بتاتے ہیں کہ ڈومیلی میں خورشید حلوائی کے امرسے مشہور تھے اور میرے والد انہی کے شاگرد تھے۔ اگر کوئی مقامی فرد آ نکلتا تو وہ جلیبی کے بجائے امرسے کا مطالبہ کرتا، میرے والد نے ساتھ امرسے بھی شروع کر دیے۔

”جلیبی پورے پاکستان میں ملتی ہے لیکن امرسے منگلہ ڈیم کے بعد بسائے گئے آبادکاروں کے لیے اور جی ٹی روڈ سے گزرنے والے اکثر افراد کے لیے نئی چیز تھی جنہیں بہت پسند کیا گیا۔ ان کی قیمت بھی جلیبی کے برابر تھی۔ امرسے یہاں کی پہچان بن گئے۔"

گڑ اور چاول سے تیار ہونے والی مٹھائی 'امرسے‘ یہاں کی پہچان بن چکے ہیںتصویر: Farooq Azam/DW

ہم ساتھ والے چھپر میں پہنچے اور محمد اکرم سے جاننے کی کوشش کی کہ امرسے کیسے تیار ہوتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا، ” امرسے بنانے کے لیے چکی کے ذریعے پہلے کچے چاول پیس لیے جاتے ہیں۔ پھر چینی یا گڑ کا شیرا بنا کر اس کا خمیر تیار کیا جاتا ہے۔ چوبیس گھنٹے کے بعد کاریگر اس خمیر کی ٹکیاں تیار کرتے ہیں، ان میں تل ڈال کر ابلتے آئل میں ڈال دیا جاتا ہے اور یوں امرسے تیار ہوتے ہیں۔"

وہ کہتے ہیں، ”گھی امرسے میں جم جاتا ہے اس لیے اس کے بجائے آئل استعمال کیا جاتا ہے۔ گڑ والے امرسے محض سردیوں کے دو تین مہینے بنتے ہیں باقی سارا سال چینی والے بناتے ہیں کیونکہ گڑ تازہ نہ ہو تو مزا نہیں آتا۔"

مقامی آبادی نہ ہونے کے باوجود مٹھائیاں کیسے بِکتی ہیں؟

عموماً کھانے پینے کے ڈھابے اور چھپر ایسے مقامات پر ہوتے ہیں جہاں آس پاس مقامی آبادی، کوئی فیکٹری یا پکنک پوائنٹ ہو۔ ڈومیلی موڑ پر ایسا کچھ نہیں یہاں کی مٹھائیاں کیسے بِکتی ہیں؟

شبیر بٹ کہتے ہیں کہ ہم سے اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں، ”دراصل یہ مزدوروں کے لیے چائے کے کھوکھے سے شروع ہوا تھا۔ جب مزدوروں کا کام ختم ہوا تو ہمارے لیے بہت مشکل تھا کہ چلتا ٹھیہ چھوڑ کر کسی اور جگہ چلے جائیں، تب تھوڑے بہت جی ٹی روڈ کے گاہک بھی آنے لگے تھے۔ معیار پہ ہمیشہ توجہ دی جو ایک بار آیا وہ بار بار آتا ہے اور دوسروں کو بھی بتاتا ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ ”ان علاقوں میں بیرون ملک اور فوج میں جانے کا بہت رجحان ہے۔ آس پاس کی آبادیوں والے جنہوں نے اپنے بچپن میں یہ امرسے کھا رکھے ہیں وہ خود آئیں تو یورپ اور دیگر ممالک میں ساتھ لے جاتے ہیں اگر کوئی اور آ رہا ہو تو اس کے ذریعے منگوا لیتے ہیں۔ ایک گاہک دس دس کلو امرسے بھی لے جاتا ہے۔"

مقامی آبادی نہ ہونے کے باوجود مٹھائیاں کیسے بِکتی ہیں؟تصویر: Farooq Azam/DW

ادھیڑ عمر عارف گزشتہ بیس برس سے امرسے بنا کر بیچ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”مقامی شادیاں ہوں، نکاح یا خوشی کا کوئی اور موقع یہاں سے بڑی مقدار میں امرسے تیار ہو کر جاتے ہیں۔ شادی کا سیزن ہمارے لیے بہت زبردست رہتا ہے۔"

ڈومیلی کی فوڈ سٹریٹ جی ٹی روڈ کے روایتی کھابہ کلچر کی نمائندہ

یہاں آ کر آپ کو بہت سے خوشگوار حیرتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ آپ کی گاڑی ہٹس کے سامنے رکتی ہے تو تین چار نوجوان جھپٹ کر آپ کو اپنی دکان کی طرف کھینچنے کی کوشش نہیں کرتے جیسا کہ بڑے شہروں میں اب عام ہے۔

آپ جس چھپر میں داخل ہوں ایک پلیٹ میں امرسے، جلیبی اور پکوڑے رکھ کر پیش کی جائے گی۔ یہ چکھنے کے لیے ہے، اگر آپ کو پسند آئے تو ٹھیک ہے ورنہ کوئی بات نہیں۔

آپ جس چھپر میں داخل ہوں ایک پلیٹ میں امرسے، جلیبی اور پکوڑے رکھ کر پیش کی جائے گیتصویر: Farooq Azam/DW

وہاں کھڑے ایک بزرگ سے ہم نے پوچھا کہ یہاں آ کر کیسا لگا تو انہوں نے کہا، ”یہاں گزشتہ پچیس برس سے آ رہا ہوں۔ جب بھی جی ٹی روڈ سے گزروں یہاں ضرور آتا ہوں کہ یہاں کے لوگ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ یہ مہمان کو عزت دینا جانتے ہیں۔ یہ آپ کو آزادی دیتے ہیں کہ جس چھپر سے جو چاہیں چکھ لیں کوئی روک ٹوک نہیں۔ آپ نے ایک سے جلیبی لی مگر اس کے پاس پکوڑے تازہ نہیں تو وہ خود کہے گا کہ وہ سامنے تازہ پکوڑے نکال رہا ہے وہاں سے لے لیں۔ یہ چیز اور کتنی جگہوں پر بھی ملے گی؟ ہمارا روایتی کلچر یہی تھا۔"

ہم نے شبیر بٹ صاحب سے کہا، ”اسلام آباد میں بہت مہنگے امرسے ملتے ہیں مگر مزہ نہیں آتا۔" ہنستے ہوئے وہ کہنے لگے، ”مٹھائی وہی اچھی جو خستہ ہو اور خستہ مٹھائی ہمیشہ تازہ ہوتی ہے۔ دس دن پرانے امرسے بس میٹھا آٹا ہے امرسہ نہیں۔"

برلن میں پاکستانی پکوان، ایک منفرد انداز میں

03:33

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں