ڈومینو ایفکٹ زمین کا درجہ حرارت پانچ ڈگری بڑھا سکتا ہے
7 اگست 2018
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر پیرس ماحولیاتی معاہدے پر مکمل عمل درآمد کر بھی لیا جائے، تو بھی ماحولیات کا ڈومینو ایفکٹ زمینی درجہ حرارت میں پانچ ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ کر سکتا ہے۔
اشتہار
ایک تازہ رپورٹ میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح زمین کے بعض حصے ’قابل رہائش‘ نہیں رہیں گے۔ جرمنی، سویڈن، ڈنمارک اور آسٹریلیا کے سائنس دانوں کی ایک مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر پیرس ماحولیاتی معاہدے میں طے شدہ اہداف پورے کر بھی لیے جائیں، جو درجہ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری تک محدود بنانے پر زور دیتا ہے، تو بھی ماحولیاتی نظام تباہ کن نکتہ عبور کر سکتا ہے۔
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی، سویڈش ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ محقق اور اس مطالعاتی رپورٹ کے اہم مصنف وِل اسٹیفن کے مطابق، ’’زمینی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بننے والی ضرر رساں گیسوں کے اخراج کا باعث صرف انسان نہیں ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا ہے، ’’ہماری مطالعاتی رپورٹ میں واضح ہے کہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے خارج ہونے والی ضرر رساں گیسوں کی وجہ سے زمینی درجہ حرارت میں دو ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو سکتا ہے، مگر اس کی وجہ سے ماحولیاتی نظام میں موجود دیگر چیزوں پر پڑنے والے اثرات، ان گیسوں کے اخراج روکے جانے کے باوجود درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جائیں گے۔‘‘
اس مطالعاتی رپورٹ کے مطابق اس طرح زمین کا اوسط درجہ حرارت صنعتی انقلاب سے قبل کے دور کے مقابلے میں چار سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ بلند ہو سکتا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے سمندر کی سطح میں دس سے ساٹھ میٹر تک کا اضافہ ممکن ہے، جو وینس، نیویارک، ٹوکیو اور سڈنی جیسے ساحلی شہروں اور سمندری جزائر میں بڑے پیمانے پر سیلابوں کا باعث ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق ممکنہ طور پر یہ بڑی آبادی والے شہر خالی کرنا پڑیں۔ سائنس دان اسے ’ہاٹ ارتھ‘ یا ’گرم زمین‘ ماحولیاتی حالت قرار دے رہے ہیں۔
یورپ شدید گرمی کی لپیٹ میں
شدید گرمی اور سورج کی تپش نے متعدد یورپی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق گرمی کی یہ لہر ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ کئی شہروں میں تو درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Akmen
دلفریب و خوبصورت
اس شدید گرمی میں بھی سیاح سورج اور ساحل سمندر کا رخ کر رہے ہیں۔ اسپین میں تعطیلات منانے والے 65 سالہ پیٹرونیو کا تعلق ایکواڈور سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ موسم خوبصورت ہے اور وہ اس صورتحال کا عمدگی کے ساتھ سامنا کر رہے ہیں۔
کئی یورپی ممالک میں درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، لیکن ماضی کے مقابلے میں یہ پھر بھی کم تھا۔ اس گرمی کے عالم میں لوگ گھر ہی رہتے ہیں یا ’واٹر لینڈز‘ کا رخ کرتے ہیں۔ اس تصویر میں ایک لڑکا نیورمبرگ میں ایک واٹر لینڈ میں لطف اندوز ہو رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Karmann
گرم ترین موسم
موسم گرما میں جنوبی یورپی ممالک میں گرمی زیادہ پڑتی ہے۔ ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ میں بھی گرمی کی شدید لہر جاری ہے۔ اسی طرح اٹلی کی بھی یہی صورتحال ہے۔ وہاں پنکھوں سے بھی اس حدت کو ختم کرنے کی کوشش ناکام ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ROPI/Piaggesi/Fotogramma
تفریح کے طور پر لڑائی
بہت زیادہ تپش اور شدید گرمی بھی یورپی باشندوں کو لطف اندوز ہونے سے نہیں روک پا رہی۔ اس گرمی کو ختم کرنے کے لیے ایک دوسرے پر پانی پھینکتے ہوئے ’واٹر فائٹ‘ بھی کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Flauraud
آرام و سکون
یہ بہترین وقت ہے کہ ساحل سمندر یا دریا کا رخ کیا جائے اور آرام کیا جائے۔ اس تصویر میں پولینڈ کے دارالحکومت وارسا کے دریائے وسٹُولا Vistula کے کنارے لوگ سستا رہے ہیں اور اس گرمی کو انجوائے بھی کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Sokolowski
ایک امکان بیئر گارڈن بھی
جرمنی میں جب شدید گرمی پڑتی ہے تو لوگ ایسے ذرائع ڈھونڈتے ہیں جو ایسے موسم کو برداشت کرنے اور اس سے لطف اندوز ہونے میں مدد دے سکیں۔ ان امکانات میں ایک اہم ذریعہ بیئر اور بیئر گارڈن ہیں۔ جرمنی کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ایسے بیئر گارڈن قائم ہیں، جہاں بالخصوص موسم گرما میں بہت رش ہوتا ہے۔
تصویر: imago/Westend61
جانور بھی پریشان
اس شدید گرمی نے نہ صرف انسانوں کو متاثر کیا ہے بلکہ جانور بھی اس سے پریشان ہیں۔ ایسی گرمی انسانوں کی طرح جانوروں کی جان بھی لے سکتی ہے۔ جرمنی میں جانوروں کے تحفظ کی ملکی تنظیم نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں کہ اس گرمی میں لوگ اپنے پالتو جانوروں کا خاص طور پر خیال رکھیں۔
تصویر: Imago
فوارے پناہ گاہ کے طور پر
جرمن شہر ڈوئسبرگ میں یہ بچہ فواروں کے عین بیچ پناہ حاصل کر کے خود کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش میں ہے۔ بالغوں کے برعکس نومولود اور چھوٹے بچے اپنے جسم کا درجہ حرارت ایک خاص حد تک رکھنے کے لیے پسینہ خارج کرنے کی زیادہ اہلیت نہیں رکھتے، اسی لیے انہیں گرم موسم میں انتہائی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Weihrauch
سوئمنگ پول ایک نعمت
جرمن صوبے تھیورنگیا کے شہر Ilmenau میں دو بچے سوئمنگ پول میں چھلانگ لگاتے ہوئے۔ گرم موسم میں یہ سہولت ایک نعمت کے برابر ہے۔ طبی ماہرین نے عام شہریوں کو تاکید کی ہے کہ انہیں اس گرمی میں زیادہ پانی پینا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reichel
شہروں میں موسم گرما
جرمن شہر کولون میں دریائے رائن کے کنارے کچھ لوگ اس گرم موسم سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے ہوئے سستا رہے ہیں۔ پس منظر میں کولون کا مشہور زمانہ کیتھیڈرل بھی نظر آ رہا ہے۔
تصویر: Imago
موسمیاتی تبدیلیاں
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ گرمی کی یہ لہر ماحولیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے۔ موسمیاتی ماہرین و سائنسدان مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ اگر عالمی درجہ حرارت کو کم کرنے کی مؤثر کوششیں نہ کی گئیں تو یہ موسمیاتی تبدیلیاں مستقبل کی بڑی پریشانیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Degl' Innocenti
11 تصاویر1 | 11
پیر کے روز یہ مطالعاتی رپورٹ پروسیجرز آف دا نیشنل اکیڈمی آف سائنسز PNAS میں شائع کی گئی ہے۔ اس ٹیم نے دو درجے سینٹی گریڈ اضافے کے ساتھ ماحولیاتی نظام پر پڑنے والے اثرات کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا۔
واضح رہے کہ پیرس ماحولیاتی معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ زمینی درجہ حرارت میں اضافے کو صنعتی دور سے قبل کے مقابلے میں دو ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھا جائے۔ اس مطالعاتی ٹیم کے مطابق اگر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے زمینی درجہ حرارت میں اضافہ دو ڈگری تک محدود کر بھی دیا گیا، تو بھی حقیقی معنوں میں یہ اضافہ کہیں زیادہ ہو گا۔