سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر سن 2020 میں ریاست جارجیا کے صدارتی انتخابات میں مبینہ مداخلت کرنے پر انتخابی جرائم سے متعلق متعدد الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ جیوری نے سماعت کے بعد ان پر فرد جرم عائد کر دی۔
اشتہار
امریکی ریاست جارجیا میں سن 2020 کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو پلٹنے کی کوششوں کی طویل تحقیقات کے بعد سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے کئی اتحادیوں پر پیر کی رات کو فرد جرم عائد کر دی گئی۔
جارجیا میں فلٹن کاؤنٹی ڈسٹرکٹ کے اٹارنی فانی ولیس نے پیر کو رات دیر گئے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ٹرمپ اور 18 دیگر افراد پر جارجیا کے صدارتی انتخابات میں مداخلت کی مجرمانہ کوششوں کا الزام عائد کیا گیا تھا اور ان سب پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
ولیس کا مزید کہنا تھا کہ 94 صفحات پر مشتمل فرد جرم میں جو الزامات عائد کیے گئے ہیں، ان کا تعلق، ’’اس ریاست میں سن 2020 کے انتخابات کے نتائج کو بدلنے کی مجرمانہ سازش کرنے سے ہے۔‘‘
گرانڈ جیوری کی جانب سے رواں برس ریپبلکن سیاستدان کے خلاف دائر کی جانے والی یہ چوتھی فرد جرم ہے اور یہ کارروائی پہلی بار ایک سابق صدر کے خلاف ٹیلیویژن پر نشر ہونے والی عدالتی سماعت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
ٹرمپ کو پہلے ہی سے تین دیگر مجرمانہ الزامات کا سامنا ہے، جن میں سے ایک میں خصوصی وکیل جیک اسمتھ کے ذریعے امریکی صدر جو بائیڈن کے خلاف اپنی انتخابی شکست کو پلٹنے کی کوشش کرنے کا الزام بھی شامل ہے۔
جارجیا کیس میں ٹرمپ کے خلاف مجموعی طور پر 13 سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں، جس میں جعلسازی، جھوٹے بیانات جمع کرانے اور ایک جعلی سرکاری اہلکار بننے کی سازش جیسے الزامات شامل ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ پر دھوکہ دہی کے ایسے الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ جیسے کہ منظم جرائم کے گروہوں کو ختم کرنے کے لیے عائد کیے جاتے ہیں۔
فرد جرم میں ٹرمپ کے ساتھیوں میں سے دیگر 18 شریک مدعا علیہان کو بھی نامزد کیا گیا ہے، جن میں ان کے سابق وکیل روڈی جولیانی کے ساتھ ساتھ وائٹ ہاؤس میں ان کے سابق چیف آف اسٹاف مارک میڈوز بھی شامل ہیں۔
اشتہار
جارجیا میں ہوا کیا تھا؟
یہ معاملہ دو جنوری سن 2021 کے دن کی ایک فون کال کا ہے، جس میں ٹرمپ نے جارجیا کے اعلیٰ انتخابی افسر بریڈ رافنسپرگر پر زور دیا تھا کہ وہ کسی بھی طرح اتنے ووٹ حاصل کریں کہ ریاست میں ان کی کم مارجن سے شکست کو کامیابی میں بدلا جا سکے۔ تاہم ریاست کے اعلیٰ انتخابی افسر نے ایسا کرنے سے منع کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ جو بائیڈن نے سن 2020 کے انتخابات کے دوران ریاست جارجیا میں ٹرمپ کو تقریباً 12,000 ووٹوں سے شکست دی تھی۔
اس واقعے کے چار دن بعد چھ جنوری سن 2021 کو، یعنی ٹرمپ کے عہدہ چھوڑنے سے محض دو ہفتے قبل، ان کے حامیوں نے قانون سازوں کو بائیڈن کی کامیابی کی تصدیق کرنے سے روکنے کی ناکام کوشش کے تحت کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا تھا۔
واضح رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2024ء کے صدارتی انتخابات کے لیے ریپبلکن پارٹی کی جانب سے نامزدگی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران انہیں متعدد طرح کی تحقیقات کا سامنا رہا ہے، تاہم وہ انہیں یہ کہہ کر مسترد کرتے رہے ہیں کہ یہ ان کے خلاف سیاسی محرکات کی وجہ سے کیا جا رہا ہے۔ وہ اسے اپنے خلاف ہونے والی سیاسی چال بتاتے ہیں۔
ص ز/ ک م (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔