ڈونلڈ ٹرمپ پر صدر ماکروں اور جرمن وزیر خارجہ کی سخت تنقید
8 جون 2018
ترقی یافتہ اور امیر ملکوں کے گروپ جی سیون کا سربراہ اجلاس آٹھ جون سے کینیڈا میں ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں شریک فرانس کے صدر ماکروں اور جرمن وزیر خارجہ نے امریکی صدر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اشتہار
جی سیون سمٹ اور احتجاجی مظاہرے
جمعہ آٹھ جون سے سات امیر اور صنعتی ملکوں کی دو روزہ جی سیون سمٹ کینیڈین صوبے کیوبیک کے مقام لامالبائی میں منعقد ہو رہی ہے۔ اس کانفرنس کے ایجنڈے کے خلاف لامالبائی میں شدید مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/Y. Herman
جی سیون سمٹ اور مظاہرے
امیر اور صنعتی ملکوں کے سربراہ اجلاس کے موقع پر ماحول دوستوں اور اقتصادی عدم مساوات کے مخالفین کے مظاہرے اب ایک روایت بنتے جا رہے ہیں۔ کینیڈا میں آٹھ جون سے شروع ہونے والی اس سمٹ کے موقع پر بھی شدید مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/Y. Herman
مظاہرین اور کیوبیک سٹی
اس تصویر میں ایک سڑک پر جلتے ہوئے آلاؤ کے قریب جمع مظاہرین کھڑے ہیں۔ کینیڈین شہر کیوبیک سٹی کے قریبی گاؤں لا مالبائی میں جی سیون سمٹ منعقد کی گئی ہے۔ کیوبیک سٹی کی مرکزی شاہراؤں پر احتجاجی مظاہرین اور پولیس ایک دوسرے کے پہلو میں موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
جی سیون سمٹ اور ماحول دوست مظاہرین
امیرملکوں کے لیڈروں کی کانفرنس کے موقع پر ماحول دوست خاص طور پر پلاسٹک مصنوعات کے استعمال کے خلاف آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔ مظاہرین صرف ایک دفعہ استعمال ہونے والے پلاسٹ پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
تصویر: David Kawai/Greenpeace
نقاب پوش مظاہرین
کیوبیک سٹی میں امیر ملکوں کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج بلند کرنے والوں میں کئی خواتین اور حضرات نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے ہیں۔ ایسے مظاہرین کا مقصد پرتشدد صورت حال میں بھی اپنی شناخت کو مخفی رکھنا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
امریکا اور برطانوی جھنڈے نذرِ آتش
سات ترقی یافتہ ملکوں میں شامل امریکا اور برطانیہ کے جھنڈوں کو مظاہروں کے دوران خاص طور پر نذر آتش کیا جاتا رہا ہے۔ کیوبیک سٹی میں بھی یہ دیکھا گیا۔ اس کی وجہ امریکا کی پیرس کلائمیٹ ڈیل سے دستبرداری خیال کی گئی ہے جب کہ برطانیہ کو امریکا کا اہم ترین حلیف ملک تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
جرمن قومی پرچم کو بھی نہیں بخشا گیا
کیوبیک شہر میں امریکی اور برطانوی جھنڈے جلانے والوں کے ساتھ بعض مظاہرین نے جرمن جھنڈا جلانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان کے مطابق ماحولیاتی پالیسیوں میں تعاون نہ کرنے والے ممالک میں جرمنی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
سات ملکوں کی کرنسی اور مظاہرین
کیوبیک سٹی میں جی سیون سربراہ اجلاس کی پالیسیوں کے خلاف مظاہروں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ان سات ملکوں کی کرنسیاں عالمی عدم مساوات کی ذمہ دار ہیں کیونکہ غریب ممالک کی اقتصادیات کا انحصار انہی کرنسیوں پر ہے۔
تصویر: Reuters/M. Belanger
ہاتھوں سے چہرے چھپانے والے شرکا
کیوبیک سٹی میں پہنچے ہوئے مظاہرین کی کوشش ہے کہ احتجاج کے دوران ذرائع ابلاغ کے نمائندے اُن کے چہروں کی تصاویر نہ لے پائیں۔ نقاب پوشی کے علاوہ بعض مظاہرین اپنے چہروں کو اپنے ہاتھوں سے بھی چھپاتے پھرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
خصوصی سکیورٹی انتظامات
کینیڈین حکومت نے جی سیون سمٹ کے انعقاد کے موقع پر تین سو ملین کے اخراجات کیے ہیں۔ اس میں خاص طور پر سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات اور پولیس کے اضافی دستوں کی تعیناتی بھی شامل ہے۔ لا مالبائی کا سکیورٹی حصار غیر معمولی ہے۔
تصویر: DW/M. Knigge
سکیورٹی اور مزید سکیورٹی
کینیڈین حکومت نے لا مالبائی کے گاؤں میں کانفرنس کے مقام کی سکیورٹی کے لیے ایک تین میٹر بلند دیوار بھی کھڑی کی ہے تا کہ مظاہرین اگر کیوبیک شہر سے نکل کر کانفرنس کے مقام کے قریب بھی آ جائیں تو انہیں دیوار کے باہر ہی روکا جا سکے۔ کیوبیک شہر کے مختلف مقامات پر پولیس کی ٹکڑیاں چوکس کھڑی ہیں۔
تصویر: Reuters/Y. Herman
10 تصاویر1 | 10
جی سیون کی سمٹ کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ پر اس تنقید کی وجہ ایلومینئم اور فولاد کی امپورٹ پر عائد کی جانے والی اضافی محصولات ہیں۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کے مطابق ایک متحد یورپ ہی ٹرمپ کی ’امریکا سب سے پہلے‘ کی پالیسی کا بھرپور جواب ہو سکتا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ کا یہ بیان جرمن روزنامہ زُؤ ڈوئچے سائٹنگ میں شائع ہوا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ امریکی صدر دنیا کی بہتری اور اسے زیادہ پرامن بنانے کے سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کر رہے ہیں۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ ابھی تک جرمن حکومت ٹرمپ کی ہدایات کے حوالے سے خاموشی پر مبنی طرزِ عمل اپنائے ہوئے تھی اور ہائیکو ماس کے بیان نے اس سکوت کو توڑ دیا ہے۔ انہوں نے یہ بیان جی سیون کی سمٹ کے شروع ہونے سے قبل اپنے انٹرویو میں دیا۔
جی سییون کی سمٹ جمعہ آٹھ جون سے کینیڈا کی میزبانی میں شروع ہو رہی ہے۔ اس موقع پر جرمن وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ ٹرمپ کے اقدامت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ماس کے مطابق امریکی صدر براہِ راست یورپ کو نقصان پہچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک متحد یورپ ہی ٹرمپ کی پالیسی کا مؤثر اورمناسب جواب ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب فرانسیسی صدر نے بھی ماس کے بیان کی ایک طرح سے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یورپ کو کسی بھی صورت میں ڈرایا دھکایا نہییں جا سکتا۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ ماضی میں فرانسیسی صدر امانوئل ماکروں نے صدر ٹرمپ کے ساتھ دوستانہ طور طریقے اپنا رکھے تھے۔ سمٹ کے موقع پر ماکروں نے کہا کہ اس گروپ کے بقیہ اراکان امریکا کی عدم موجودگی میں ڈیل پر دستخط کر سکتے ہیں۔
فرانسیسی صدر نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ یقینی طور پر صدر ٹرمپ کو تنہا ہونے پر کوئی قباحت نہیں ہو گی اور اسی طرح جی سیون کے بقیہ چھ ملکوں کو ضرورت پڑی تو وہ کسی ڈیل کو حتمی شکل دینے پر کسی قسم کی افسردگی محسوس نہیں کریں گے۔
جمعہ آٹھ جون سے سات امیر اور صنعتی ملکوں کی دو روزہ جی سیون سمٹ کینیڈین صوبے کیوبیک کے مقام لامالبائی میں منعقد ہو رہی ہے۔ اس سربراہ اجلاس کے ایجنڈے پر صنفی امتیاز اور ماحولیات کے موضوعات کے علاوہ ایلومینیئم اور فولاد پر عائد کی جانے والی اضافی امریکی محصولات بھی زیربحث لائی جا سکتی ہیں۔