وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ٹرمپ میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے وہاں نیشنل ایمرجنسی نافذ کر سکتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تفصیلی جائزہ لیا ہے کہ ٹرمپ نے آخر یہ فیصلہ کیوں کیا اور آیا انہیں کامیابی حاصل ہو گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
اشتہار
نیشنل ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطلب کیا ہے؟
امریکی آئین عام طور پر صدر کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ ٹیکس دہندگان کے پیسے خرچ کرنے کے لیے کانگریس کے دونوں ایوانوں یعنی ایوان نمائندگان اور سینیٹ سے باقاعدہ اجازت لیں۔ تاہم نیشنل ایمرجنسی نافذ کر کے صدر کانگریس کی اجازت حاصل کرنے کے مرحلے سے بچ کر وہاں پیسے سرف کر سکتے ہیں جہاں وہ کرنا چاہییں۔ 1976ء میں منظور کیے جانے والے اس قانون جسے نیشنل ایمرجنسی ایکٹ کا نام دیا گیا ہے، صدر کے پاس وسیع امکانات موجود ہیں جنہیں وہ ایمرجنسی قرار دے سکتے ہیں۔
ٹرمپ کو ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے اپنے ایک وعدے کی تکمیل یعنی میکسیکو کی سرحد پر ہر حال میں دیوار تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم کانگریس نے اس مقصد کے لیے ٹرمپ کی طرف سے طلب کیے گئے 5.7 بلین ڈالر خرچ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ تاہم ارکان پارلیمان نے سرحد پر باڑ کی تعمیر کے لیے 1.4 بلین ڈالر جاری کرنے کی پیشکش کی ہے۔ ٹرمپ نے 2016ء کی صدارتی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ یہ دیوار تعمیر ہو گی اور میکسیکو کو اس کی لاگت برداشت کرنا ہو گی۔ ان کا کہنا تھا اس سے جرائم میں کمی آئے گی اور میکسیکو سے غیر قانونی طور پر امریکا آنے والے تارکین وطن کا سلسلہ رکے گا۔
’میکسیکو باڑ یا ٹرمپ کی دیوار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو سے ملنے والی امریکی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ ہو گا۔ کئی سالوں سے اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/J. L. Gonzalez
ٹرمپ کا تجربہ
اپنی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا، ’’اپنی جنوبی سرحد پر میں ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتا ہوں اور کوئی بھی مجھ سے بہتر دیواریں نہیں بنا سکتا۔ میں اس دیوار کی تعمیر کے اخراجات میکسیکو سے حاصل کروں گا۔‘‘ بہرحال ابھی تک انہوں نے اونچی عمارتین اور ہوٹل ہی بنائے ہیں۔ ٹرمپ کے تارکین وطن سے متعلق دس نکاتی منصوبے میں اس دیوار کی تعمیر کو اوّلین ترجیح حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Torres
کام جاری ہے
امریکا اور میکسیکو کے مابین سرحد تقریباً تین ہزار دو سو کلومیٹر طویل ہے۔ ان میں سے گیارہ سو کلومیٹر پر پہلے ہی باڑ لگائی جا چکی ہے۔ یہ سرحد چار امریکی اور میکسیکو کی چھ ریاستوں کے درمیان سے گزرتی ہے۔ دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ریاست نیو میکسیکو میں اس باڑ کی تعمیر کا کام ادھورا ہی رہ گیا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
حالات کے ہاتھوں مجبور
غیر قانونی طریقوں سے میکسیکو سے امریکا میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سالانہ بنتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق میکسیکو سے ہی ہوتا ہے۔ میکسیکو کے شہریوں کو بہت ہی کم امریکی ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک بہتر زندگی کا خواب لے کر امریکا آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Zepeda
باڑ کی وجہ سے تقسیم
یہ خاندان باڑ کی وجہ سے تقسیم ہیں تاہم ایک دوسرے مصافحہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے ان لوگوں کے جلد ہی ایک دوسرے سے ملنے کے امکانات بھی تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/J. West
تعصب
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا،’’میکسیکو اپنے اُن شہریوں کو ادھر بھیجتا ہے، جو کسی کام کے نہیں اور نا ہی ان میں کوئی قابلیت ہے۔ یہاں مسائل کا شکار میکسیکن ہی آتے ہیں، جو منشیات فروش اور جرائم پیشہ ہونے کے علاوہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔‘‘ ٹرمپ ایسے تمام جرائم پیشہ افراد کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Bull
ریگستان، سرحد اور واپسی
میکسیکو کے بہت سے شہریوں کے لیے امریکا کا سفر اس باڑ پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ کچھ کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے جبکہ کچھ اس سرحد کو پار کرنے کی قیمت اپنی جان سے چکاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ سرحدی محافظین کی جانب سے میکسیکو میں فائرنگ کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ ایک ایسے واقعے میں میکسیکو کے چھ ایسے شہری ہلاک ہو گئے تھے، جو سرحد پار نہیں کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: Reuters/D.A. Garcia
اپنا محافظ خود
یہ ایک امریکی کاشتکار جم چلٹن ہے، جو اس بندوق کے ساتھ اپنی زمین کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس کا دو لاکھ مربع میٹر پر محیط یہ فارم میکسیکو کی سرحد کے پاس جنوب مشرقی ایریزونا میں واقع ہے۔ یہاں پر صرف یہ خار دار تار ہی لگی ہے۔ جم چلٹن خود ہی اپنا محافظ ہے اور اس دوران اسے کئی مرتبہ اپنی یہ شاٹ گن اٹھانی پڑی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F.J. Brown
عجب انداز میں اختتام
عام بول چال میں اس تقریباً ساڑھے بائیس کلومیٹر طویل باڑ کو ’تورتیا وال‘ کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ ’تورتیا‘ میکسیکو کی ایک مخصوص قسم کی ایک روٹی کو کہا جاتا ہے۔ یہ باڑ سان ڈیاگو (کیلی فورنیا) اور بحرالکاہل کے درمیان نصب کی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Zepeda
8 تصاویر1 | 8
ٹرمپ دیوار پر رقم خرچ کیسے کر سکیں گے؟
ایمرجنسی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ دیگر منصوبوں سے وفاقی فنڈز دیوار کی تعمیر پر خرچ کر سکتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ فوجی تعمیرات کے لیے اطلاعات کے مطابق الگ سے جمع شدہ 21 بلین ڈالر میں سے کچھ رقم اس منصوبے پر لگائی جا سکتی ہے۔ وہ فوج سے بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سول تعمیراتی منصوبوں کو روک کر پیسہ اور افرادی قوت دیوار کی تعمیر پر سرف کریں۔ دیگر امکانات میں ڈیزاسٹر ریلیف یا پھر انسداد منشیات کے مختص فنڈز سے بھی اس مقصد کے لیے پیسوں کا حصول شامل ہیں۔
کانگریس نے ٹرمپ کو رقم دینے سے انکار کیوں کیا؟
ڈیموکریٹک ارکان پارلیمان کا جو امریکی ایوان نمائندگان میں اکثریت رکھتے ہیں، کہنا ہے کہ اس دیوار کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات بہت زیادہ ہیں، یہ غیر مؤثر ہو گی اور اس کی تعمیر غیر اخلاقی عمل ہے۔ یہاں تک کہ ری پبلکن پارٹی کے بعض اراکین بھی ٹرمپ کے اس مطالبے کے حامی نہیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو دیگر سیاسی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کیا کانگریس ٹرمپ کو روک سکتی ہے؟
کانگریس ایمرجنسی نافذ کرنے کے فیصلے کو رد بھی کر سکتی ہے اگر اس کے دونوں ایوان اس پر متفق ہو جائیں تو۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے کنٹرول والا ایوان نمائندگان ممکنہ طور پر ایسی کوشش کرے گا بھی، لیکن ری پبلکن کی اکثریت رکھنے والی سینیٹ ٹرمپ کی مدد کے لیے اس کوشش کو ناکام بنا سکتی ہے۔
بیدخل کیے جانے والے میکسیکن کی واپسی لیکن نئی شروعات کیسے
امریکی صدر کے حکم پر غیرقانونی میکسیکن مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی واپس بھیجے جانے والے مہاجرین نصف سے زائد زندگی امریکا میں بسر کر چکے ہیں۔ ہر ہفتے ایسے مہاجرین کے تین ہوائی جہاز میکسیکو سٹی پہنچ رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Blackwell
ایک تلخ واپسی
امریکا میں مقیم غیرقانونی مہاجرین کو میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر پہنچایا جاتا ہے۔ ان کو ہتھکڑیاں پہنا کر ہوائی جہاز پر سوار کرایا جاتا ہے۔ ہوائی جہاز کے اترنے سے بیس منٹ قبل یہ ہتھکڑیاں کھول دی جاتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
غیرقانونی اجنبی
جورج نینو کو اُس وقت پتہ چلا کہ وہ امریکا میں ایک غیرقانونی مہاجر ہے، جب اُس کی عمر اٹھارہ برس کی ہوئی۔ اُسے حکام نے سوشل سکیورٹی نمبر دینے سے انکار کر دیا۔ جورج کے والدین اُسے کم عمری میں امریکا لائے تھے۔ بچپن سے امریکا میں زندگی بسر کرنے والا جورج پانچ برس قبل بیدخل کر کے میکسیکو پہنچا دیا گیا۔ وہ چونتیس برس امریکا میں رہا۔ اُس کے چار بچے جو سابقہ بیوی کے ساتھ امریکی شہر فریزنو میں رہتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک غیر ملک
ماریا ہیریرا ستائیس برس کی ہے، اُسے امریکی حکام نے رواں برس دس اپریل کو ڈی پورٹ کیا۔ وہ امریکا میں اپنے قیام میں توسیع کے لیے ویزے کا انتظار کر رہی تھی کہ گرفتار کر لی گئی۔ وہ تین برس کی عمر میں میکسیکو سے امریکا پہنچی تھی۔ اب امریکا کی طرح میکسیکو بھی اُس کے لیے اجنبی دیس ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی شروعات
ماریا کی جورج سے ملاقات ایک غیرسرکاری تنظیم نیو کومینزوس کے دفتر میں ہوئی تھی۔ یہ تنظیم غیر ملکیوں کی معاونت کرتی ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اس سے بھی بےخبر تھے کہ ایک دن انہیں میکسیکو سٹی میں ایک نئی زندگی کی شروعات کرنا ہو گی۔ امریکا میں ماریا کو گرفتاری کے بعد ڈیپرشن کا بھی سامنا رہا۔ اب وہ نئی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
گرفتاری اور ملک بدری
ڈیگو میگوئل کی عمر سینتیس برس ہے، اُس کو سابقہ گرل فرینڈ کے ساتھ لڑائی کے نتیجے میں سن 2003 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ میگوئل کو امریکی حکام نے سن 2016 میں ملک بدر کر دیا۔
تصویر: DW/S. Derks
ٹرمپ اور اُس کی دیوار
پانچ ملک بدر کیے گئے میکسیکن شہریوں کو حکومت نے مالی معاونت کی اور اب وہ چھپائی کا کام کرتے ہیں۔ ان کی تیار کردہ ٹی شرٹس اور بیگز پر ’ٹرمپ اور اُن کی دیوار‘ لکھا ہوتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
مددگار ہاتھ
ڈیگو کے پاس کوئی بہت بڑی تنخواہ والی نوکری نہیں لیکن اپنے محدود وسائل کے ساتھ وہ میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر ملک بدر کیے گئے ہم وطنوں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ ایسے افراد کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ وہ بھی امریکا سے ملک بدر کیا گیا تھا۔ اُسے میکسیکو میں اپنا جدا ہو جانے والا بیٹا بہت یاد آتا ہے، جو اُس کی سابقہ بیوی کے ساتھ امریکا ہی میں مقیم ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی ابتدا ہو گئی ہے
ڈینئل سونڈوان کو رواں برس فروری میں امریکا سے بیدخل کیا گیا۔ وہ بہت مطمئن ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ امریکا میں وہ اپنے مستقبل کے بارے میں بہت کم سوچتا تھا کیونکہ کوئی بھی کام شروع کرنے سے قبل اُسے شناختی دستاویزات کی ضرورت تھی، جو اُس کے پاس نہیں تھیں لیکن اس بیدخلی کے بعد میکسیکو میں وہ ایک بہتر مستقبل تعمیر کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
اطمینان سے آبادکاری
ڈینئل سونڈوان ایک پرنٹ شاپ کے اوپر رہ رہا ہے۔ ایک پادری نے اُس کی ابتدائی رہائش کا بندوبست کیا تھا۔ وہ میکسیکو سٹی میں ایک پچھتر برس کی خاتون کے گھر پر دو ہفتے مقیم رہا۔ اب بیدخل کیے جانے والے افراد کی مقامی تنظیم ڈی پورٹاڈوس کے تعاون سے وہ ایک نئی رہائش گاہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
بیدخلی کا روشن پہلو
بہت سارے بیدخل کیے جانے والے اپنی ساری جمع پونجی امریکا میں ہی چھوڑ چکے ہیں۔ کئی ایسے افراد کہتے ہیں کہ جو چھن چکا ہے، وہ سب کچھ نہیں تھا۔ یہ لوگ اپنے ملک میں قانونی شہری ہیں اور وہ کسی خوف کے بغیر جی رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے۔
تصویر: DW/S. Derks
10 تصاویر1 | 10
ٹرمپ کو اور کون روک سکتا ہے؟
قانونی ماہرین نیشنل ایمرجنسی کے امکان پر اختلافی رائے رکھتے ہیں۔ ایمرجنسی سے متاثر ہونے والے ارکان پارلیمان، ریاستی حکومتیں اور کاروباری ادارے ممکنہ طور پر عدالتوں سے استدعا کریں گے کہ ایمرجنسی کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ ان کا استدلال ہو سکتا ہے کہ جنوبی سرحد پر ایمرجنسی کی سی کوئی صورتحال نہیں ہے یا پھر یہ کہ صدر کے پاس ٹیکس دہندگان کے پیسے خرچ کرنے کا اختیار محدود نوعیت کا ہے۔
اور اس سب کا تعلق حکومت کی جزوی بندش ’شٹ ڈاؤن‘ سے کیا تعلق ہے؟
ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایک اور شٹ ڈاؤن سے بچنے کے لیے اُس فنڈنگ بِل پر دستخط کر دیں گے جو کانگریس نے منظور کیا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ قومی ایمرجنسی کا اعلان بھی کریں گے اگر دیوار کی تعمیر کے ان کے مطالبے کے لیے فنڈ جاری نہ کیے گئے تو۔ گزشتہ برس دسمبر میں حکومت کی جزوی بندش 35 روز تک جاری رہی تھی کیونکہ اُس وقت ٹرمپ نے اخراجات کا بِل اسی وجہ سے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ دیوار کے لیے اس میں فنڈز مختص نہیں کیے گئے تھے۔ وہ امریکی تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن تھا۔