'امریکہ میں کچھ بہت ہی خطرناک ہو رہا ہے'، جو بائیڈن
29 ستمبر 2023
امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک غیر معمولی اقدام کے تحت اپنے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کا نام لے کر ان پر نکتہ چینی کی۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق آئندہ صدارتی انتخابات کے لیے ٹرمپ ریپبلکن کے امیدواروں میں سر فہرست ہیں۔
اشتہار
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے حریف ڈونلد ٹرمپ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ فی الوقت، ''امریکہ میں کچھ بہت ہی خطرناک ہو رہا ہے۔'' واضح رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سن 2024 میں ریپبلکن پارٹی میں صدارتی امیدوار نامزد ہونے کی دوڑ میں اپنے دیگر حریفوں کے مقابلے میں سب سے آگے ہیں۔
بائیڈن نے کہا، ''ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے: جمہوریتوں کو آخر میں رائفل سے مرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس وقت مر سکتی ہے، جب لوگ خاموش ہو جاتے ہیں، جب وہ کھڑے ہونے میں ناکام رہتے ہیں یا جمہوریت کو لاحق خطرات کی مذمت نہیں کرتے، کیونکہ لوگ مایوس، تھکا ہوا اور الگ تھلگ محسوس کرنے کے سبب، جو چیز اپنے لیے سب سے قیمتی ہوتی ہے، اسی کو کھو دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔''
واضح رہے کہ سابق صدر ٹرمپ نے نعرہ دیا تھا ہے، 'میک امریکہ اگین گریٹ' (ایم اے جی اے) یعنی امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں۔
بائیڈن نے اس نعرے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ''اس پر اب کوئی سوال نہیں ہے کہ آج کی ریپبلکن پارٹی کو ایم اے جی اے کے انتہا پسند چلا رہے ہیں اور اسے ڈرا دھمکا بھی رہے ہیں۔''
چونکہ ایریزونا میں جس تقریب سے بائیڈن خطاب کر رہے تھے وہ ان کے مرحوم دوست اور سیاسی حریف نیز ریپبلکن پارٹی کے اندر ٹرمپ کے سخت ناقد سینیٹر جان مکین کے اعزاز میں تھی، اس لیے اس کی اہمیت زیادہ ہے۔
اشتہار
ٹرمپ 'انتقام اور بدلے' کے جذبے سے سرشار
عام طور پر جو بائیڈن ٹرمپ کے لیے ان کا نام لینے کے بجائے اپنا ''پیش رو'' یا ''آخری شخص'' جیسے الفاظ کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ تاہم جمعرات کو اپنی تقریر کے دوران انہوں نے ان کا نام لے کر ان پر نکتہ چینی کے لیے کچھ سخت ترین الفاظ کا بھی استعمال کیا۔
بائیڈن نے ٹرمپ کے بعض بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ عہدہ صدارت پر رہتے ہوئے اپنے اختیارات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ٹرمپ کا کہنا ہے کہ آئین نے انہیں وہ سب کرنے کا حق دیا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''میں نے تو کبھی کسی صدر کو بطور مذاق بھی یہ کہتے ہوئے نہیں سنا۔۔۔۔ اس کی رہنمائی آئین کی طرف سے یا پھر ہمارے امریکی ساتھیوں کی مشترکہ خدمت اور شائستگی کے جذبے سے نہیں ہے، بلکہ یہ انتقام اور بدلے کے جذبے کے ذریعے ہے۔''
بدھ کے روز ریپبلکن پارٹی میں صدارتی امیدواری کے لیے دوسری پرائمری بحث تھی تاہم ڈونلڈ ٹرمپ اس بار بھی اس میں شریک نہیں ہوئے۔ وہ فی الحال اپنی پارٹی کے ممکنہ امیدواروں کی فہرست میں اتنے بڑے فرق سے آگے ہیں کہ ان کے تمام مخالفین کو جس قدر حمایت حاصل ہے، ٹرمپ کو تن تنہا اتنی فیصد سے زیادہ حمایت مل رہی ہے۔
ص ز / ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔