1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈھائی ماہ کے اندر 6 افراد کا غیرت کے نام پر قتل

Kishwar Mustafa24 جولائی 2012

غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی وارداتوں سے متعلق درست اعداد و شمار کسی سرکاری یا غیر سرکاری تنظیم کے پاس موجود نہیں

تصویر: DW

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ صوبہ سندھ ، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے بعد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان تنظیموں کے مطابق پولیس ریکارڈ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ ڈھائی ماہ کے دوران 6 افراد کو اسلام آباد میں غیرت کے نام پر قتل کیا جا چکا ہے۔

یکم مئی سے 19جولائی تک ہونے والی ان وارداتوں میں 3 خواتین اور 3 مرد ہلاک ہوئے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی وارداتوں سے متعلق درست اعداد و شمار کسی سرکاری یا غیر سرکاری تنظیم کے پاس موجود نہیں اور اس سلسلے میں زیادہ تر پولیس ریکارڈ اور ذرائغ ابلاغ کی رپورٹس پر ہی انحصار کیا جاتا ہے۔

بھارت میں AIDWA کی جانب سے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہےتصویر: UNI

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت نے 2004ء میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل پارلیمان میں پیش کیا تھا تاہم اس بل میں غیرت کے نام پر قتل کو قابل سمجھوتہ جرم قرار دیا تھا۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی وکیل رفعت بٹ کا کہنا ہے کہ قابل سمجھوتہ جرم ہونے کی وجہ سے اکثر اس طرح کی وارداتوں میں فریقین سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور یوں مقدمہ ختم ہو جاتا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے رفعت بٹ نے کہا ‘‘ دراصل غیرت کے نام پر قتل ایک مائنڈ سیٹ ہے جس میں عورت کے جسم پر حاکمیت حاصل کرنے کو غیرت سمجھا جاتا ہے۔ اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح کسی بھی عورت کو غیرت کے نام پر آسانی سے قتل کیا جاتا ہے اور مجرم آسانی سے بچ نکلتے ہیں۔ ''

دوسری جانب سپریم کورٹ کے وکیل ذوالفقار بھٹہ کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں کی تعداد اصل میں اس سے کہیں زیادہ ہے جو کہ رپورٹ کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرتی مجبوریوں کی وجہ سے کئی لوگ اس طرح کے مقدمات کو دبا دیتے ہیں ۔ ذوالفقار بھٹہ نے کہا "غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات کو دبانے کے لیے اکثر سیاسی اثر وسوخ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پولیس بھی اس طرح کی وارداتوں میں تفتیش سنجیدگی سے نہیں کرتی اور یہی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کا اور بھی حوصلہ بڑھتا ہے کہ وہ اس طرح کا بھیانک جرم کر لیں تو تب بھی بچ جائیں گے۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے قانون کے موثر نفاذ کی ضرورت ہے۔''

جرمنی میں آباد افغان اور کُرد باشندوں کے گھرانوں میں بھی غیرت کے نام پر قتل کے اکا دکا واقعات سامنے آئے ہیںتصویر: AP

قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت کو غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل سمجھوتہ جرم قرار دینا چاہیے کہ تا کہ معاشرے میں اس طرح کے واقعات کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کو کسی فرد کے نہیں بلکہ ریاست کے خلاف جرم قرار دینا چاہیے۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں