ڈھاکہ میں جاری مسلح بغاوت ختم
26 فروری 2009![](https://static.dw.com/image/4058475_800.webp)
اس سے قبل بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے قوم سے خطاب میں باغیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہتھیار نہ پھینکنے کی صورت میں ان کےخلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ان کے اس خطاب کے بعد فوجی ٹینکوں نے ڈھاکہ شہر میں BDR کے ہیڈ کورٹر اور بیرکوں کے قریب پوزیشنیں سنبھال لی تھیں۔
سرکاری ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں شیخ حسینہ واجد نےبارڈر گارڈز کی اس کارروائی کو خودکشی سے تعبیر کیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے شہریوں سے پرامن رہنے اور پرتشدد کارروائیوں کا حصہ نہ بننے کی اپیل کی تھی۔
بنگلہ دیش رائفلز اور فوج کے درمیان تصادم بدھ کے روز تنخواہوں اور رینکوں کے تنازعے کے باعث پیش آیا تھا۔ بعدازاں یہ تنازعہ ملک بھر میں پھیل گیا اور پرتشدد کارروائیوں میں کم از کم 50 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں فوج کے 6اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ بدھ کے روز ان واقعات کی ابتدا کے بعد شہر میں طرح طرح کی افواہیں گردش کرتی رہیں جن کے باعث حکومت نے ڈھاکہ شہر میں موبائل فون سروس بھی معطل کر دی تھی۔
وزیر اعظم نے باغیوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ان کے جائز مطالبات پر غور کیا جا سکتا ہے۔
جمعرات کو بارڈر گارڈز کی جانب سے فائرنگ کے تازہ واقعات کے باعث بنگلہ دیش رائفلز کے ہیڈ کوارٹرز کے قریبی تعلیمی ادراے، بازار اور دکانیں بند رہیں۔
BDR کے 70000 سپاہی ملک بھر میں 42 کیمپوں میں متعین ہیں ان میں سرحدی حفاظت پر معمور 40000 سپاہی بھی شامل ہیں۔ BDR کے اعلیٰ افسران کا تقرر ریگولر آرمی کی صفوں میں سے کیا جاتا ہے۔ تنخواہوں اور دیگر مراعات کے علاوہ باڈر گارڈز یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ افسران کی تعیناتی BDR ہی سے ہونی چاہیئے نہ کہ فوج سے۔
اس ہنگامہ آرائی اور بغاوت کے بعد کئی مقامات پر بنگلہ دیش رائفلز کے اہلکاروں نے اپنے فوجی افسران کو یرغمال بنا لیا اور کچھ مقامات پر انہیں چوکیوں سے نکال دیا۔ ڈھاکہ میں واقع BDR کے ہیڈ کوارٹر پر فوجی کارروائی میں شریک ہیلی کاپٹروں فائرنگ بھی کی گئی۔