1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈھاکہ: کچی بستیوں کے چمڑا رنگنے والے

9 اکتوبر 2012

بنگلہ دیشی دارالحکومت کی پسماندہ بستی ہزاری باغ میں چمڑے کی وہ لگژری مصنوعات تیار ہوتی ہیں، جو پوری دنیا میں بکتی ہیں۔ تاہم ان کی تیاری کے عمل کے دوران مزدوروں کو انتہائی زہریلے کیمیائی مادوں کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔

تصویر: Christoph Hasselbach

منگل 9 اکتوبر کو جاری کیے جانے والے ایک مطالعاتی جائزے میں مزید بتایا گیا ہے کہ ان مزدوروں میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔ ہزاری باغ نامی اس علاقے میں تنگ سی جگہ پر چمڑا رنگنے کے بے شمار مراکز کام کر رہے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری کردہ اِس جائزے میں بتایا گیا ہے کہ چمڑے کو رنگنے کے ان مراکز میں استعمال شُدہ پانی کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ صحت کے لیے انتہائی خطرناک اِس پانی میں جانوروں کا گوشت ہی شامل نہیں ہوتا بلکہ اس میں گندھک کا تیزاب، قلعی اور سیسے جیسے زہریلے مادے بھی شامل ہوتے ہیں۔ تاہم یہ مراکز اپنے اس گندے پانی کو کھلے گٹرز میں بہا دیتے ہیں، جہاں سے یہ ممکنہ طور پر شہر کے بڑے دریا میں بھی پہنچ جاتا ہے۔

مراکش میں چمڑا رنگنے کے ایک مرکز کا منظرتصویر: Wikipedia/cc-by-sa-2.0-de

اِس رپورٹ کے مصنف رچرڈ پیئرس ہاؤس کہتے ہیں:’’ہزاری باغ کی ٹینریاں یا دباغ خانے ماحول میں ضرر رساں مادوں کے اخراج کی وجہ بن رہے ہیں۔ حکومت اس سارے مسئلے کو نظر انداز کر رہی ہے، جس کی وجہ سے مقامی آبادی بیمار ہو رہی ہے اور خطرناک مادوں کے ساتھ ربط میں آنے کے باعث مزدور طرح طرح کے مصائب کا شکار ہیں۔‘‘

پیئرس ہاؤس نے جائزے کے اجراء سے پہلے خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش میں چمڑے کی جو بھی مصنوعات تیار ہوتی ہیں، اُن کا 90 فیصد ہزاری باغ سے آتا ہے، جہاں فضا میں ہر وقت ایک خاص طرح کی بُو رچی بسی رہتی ہے اور جہاں کوئی پندرہ ہزار کارکن کام کرتے ہیں۔

بنگلہ دیش کے لیے چمڑے کی مصنوعات کا یہ مسلسل بڑھتا ہوا کاروبار کس قدر اہمیت رکھتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مالی سال 2011-12ء میں جنوبی ایشیا کے اس غریب ملک نے چمڑے کی 663 ملین ڈالر مالیت کی مصنوعات برآمد کیں۔ ان مصنوعات کو زیادہ تر چین، جنوبی کوریا، جاپان، اٹلی، جرمنی، اسپین اور امریکا نے خریدا۔

پیئرس ہاؤس کہتے ہیں:’’یہاں کی چمڑے کی مصنوعات برآمد کرنے والے بیرونی ممالک کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اُن کے ساتھ کاروبار کرنے والی کمپنیاں صحت یا سلامتی سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتیں یا ماحول کو زہر آلود نہیں بناتیں۔‘‘

بنگلہ دیش کے وزیر صنعت دلیپ باؤڑا نے روئٹرز کو بتایا کہ حکومت کو اِس آلودگی کا اور ہزاری باغ میں انسانی صحت کے لیے پائے جانے والے خطرات کا علم ہے لیکن ان سے ایک ایسے منصوبے کے ذریعے نمٹنے کا پروگرام بنایا گیا ہے، جس کے تحت سن 2013ء کے وسط تک ان دباغ خانوں کو ڈھاکہ سے باہر واقع ایک علاقے میں منتقل کر دیا جائے گا۔

چمڑا رنگنے کے عمل میں زیادہ تر بچوں سے کام لیا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/Alan Keohane/Impact Photos

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ پہلے پہلے یہ منصوبہ سن 2005ء میں وضع کیا گیا تھا لیکن نوکر شاہی کی رکاوٹیں آڑے آتی رہیں اور یہ منصوبہ بر وقت مکمل نہ ہو سکا۔ 2009ء میں ہائیکورٹ کا بھی ایک حکم آیا لیکن حکومت ان مراکز کی دوسری جگہ منتقلی کے حوالے سے پہلے مہلت مانگتی رہی اور بالآخر اسے نظر انداز کر دیا۔

ہیومن رائٹس واچ کے اس مطالعاتی جائزے کی تیاری کے لیے پیئرس ہاؤس نے ڈھاکہ میں پانچ ماہ کی ریسرچ کے دوران 139 افراد کے انٹرویو کیے۔ اس دوران اُس نے اس بستی کے مکینوں کو اُن جوہڑوں میں نہاتے بھی دیکھا، جن کے پانی کی رنگت آلودگی کے باعث سیاہی مائل ہو چکی تھی۔ اُس نے گیارہ گیارہ سال کے بچوں کو بھی تقریباً ایک ہزار ٹکا (12.30 ڈالر) کی اجرت پر ان مراکز میں خطرناک حالات میں کام کرتے دیکھا۔

بنگلہ دیش صرف چمڑا بھی برآمد کرتا ہے اور چمڑے کی مکمل طور پر تیار شُدہ مصنوعات بھی، جن میں اعلیٰ فیشن کے جوتے بھی شامل ہوتے ہیں۔

(aa/ai(reuters

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں