1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈھاکہ: یوم مئی مارچ مظاہروں میں تبدیل

Zubair Bashir1 مئی 2013

بنگلہ دیش میں یوم مئی کے موقع پر ڈھاکہ کی سڑکوں پر مارچ کرنے والے ہزاروں مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ کام کی جگہوں پر کارکنوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور رانا پلازہ میں اموات کے ذمہ داروں کو سزائے موت دی جائے۔

تصویر: AFP/Getty Images

گذشتہ ہفتے ڈھاکہ کے نواح میں ایک عمارت کے انہدام کے افسوس ناک واقعے میں ہلاک والے اپنے سینکڑوں ساتھیوں کے غم میں ڈوبے ہزاروں کارکن پیدل، پک اپ ٹرکوں اور موٹرسائیکلوں پر سوار ڈھاکہ شہر کے بیچوں بیچ منعقدہ اس ریلی میں شریک ہوئے۔ قومی پرچم اور احتجاجی بینرز اٹھائے یہ مظاہرین رانا پلازہ حادثے کے ذمہ داران کو موت کی سزا دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ دارالحکومت سے باہر واقع اس فیکٹری کمپلیکس کے حادثے میں 400 سے زائد کارکن ہلاک اور 2500 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

ہر سال کی طرح منعقد ہونے والی اس ریلی میں خلاف معمول لگنے والے نعروں نے ماحول کو افسردہ بنائے رکھا۔ کسی ٹرک پر لگے ہوئے لاؤڈ اسپیکر سے آواز سنائی دے رہی تھی، ’مرنے والوں کا خون رائیگاں نہیں جائےگا‘، تو کہیں سے یہ صدا آ رہی تھی،’اس حادثے میں میرا بھائی بھی مرا ہے‘۔ کوئی گلوگیر آواز میں اپنی مرنے والی بہن کا تذکرہ کر رہا تھا ۔

یوم مئی روایتی طور پر ایک ایسا موقع ہوتا ہے، جب مزدور کھل کر اپنے مسائل کے حل کے لیے مطالبات کرتے ہیں لیکن اس سال یہ موقع ملک میں ہونے والے دو بڑے حادثات کی وجہ سے ایک ہی نقطے پر فوکس رہا اور وہ تھا، کام کا جگہوں پر کارکنوں کی حفاظت کو یقینی بنانا۔

ڈھاکہ سے باہر ساور کے علاقے میں قائم رانا پلازہ میں ملبوسات تیار کرنے کی 5 فیکٹریاں کام کر رہی تھیںتصویر: Reuters

امریکی مزدور یونینوں کی تنظیم AFL-CIO کی بنگلہ دیشی شاخ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال نومبر میں ہونے والی آتشزدگی کے ہولناک واقعے سے لے کر اب تک پانچ ماہ کے عرصے میں موجودہ رانا پلازہ حادثے سے پہلے پورے ملک میں فیکٹریوں میں آتشزدگی سمیت 40 مختلف حادثات ہو چکے ہیں۔ ان حادثات میں 121 کارکن ہلاک اور 660 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

ڈھاکہ سے باہر ساور کے علاقے میں قائم رانا پلازہ میں ملبوسات تیار کرنے کی 5 فیکٹریاں کام کر رہی تھیں۔ اس عمارت کے انہدام کے بعد وہاں ہونے والی بڑی تعداد میں ہلاکتوں نے اس واقعے کو ملبوسات سازی کی صنعت میں ہونے والا اب تک کا سب سے ہولناک حادثہ بنا دیا ہے۔

مقامی پولیس اس کمپلیکس میں موجود فیکٹری مالکان سمیت عمارت کے مالک سہیل رانا کو بھی گرفتار کر چکی ہے۔ اس سے اس حوالے سے پوچھ گچھ جاری ہے۔ اس پر غفلت، غیر قانونی تعمیر اور لوگوں سے جبری مشقت لینے جیسی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہونے کا امکان ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ اپنی جگہ لیکن بنگلہ دیشی قوانین کے مطابق ان جرائم کی زیادہ سے زیادہ سزا سات سال قید ہو گی۔

zb/aa(AP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں