’ڈی‘،اسرائیلی انٹلی جنس ایجنسی موساد کے نئے سربراہ
16 دسمبر 2020
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے’ڈی‘ کو خفیہ ایجنسی موساد کا نیا سربراہ مقرر کیا ہے لیکن اس پراسرار نام کو فی الحال ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
اشتہار
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے خفیہ ایجنسی موساد کے نئے ڈائریکٹر کی تقرری کا اعلان کیا ہے، جو فی الحال صرف 'ڈی‘ کے نام سے جانے جائیں گے، وہ موساد کے موجودہ سربراہ یوسی کوہن کی جگہ لیں گے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے منگل کے رو ز جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ'' نیتن یاہو نے موساد کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر 'ڈی‘ کو ایجنسی کا نیا ڈائریکٹر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے خفیہ اطلاعات یکجا کرنے والی یونٹ، خفیہ کارروائیوں اور اسرائیل میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ذمہ داریاں ادا کی ہیں۔"
اسرائیل سکیورٹی کی وجوہات کی بنا پر موساد کے اعلی عہدیداروں کے ناموں کو بالعموم ظاہر نہیں کرتا ہے۔ لیکن یوسی کوہن اپنے پیش رو بیشتر ڈائریکٹروں کے مقابلے میں اسرائیل کی خارجہ انٹیلیجنس سروس کے زیادہ نمایاں سربراہ رہے ہیں۔ انھوں نے اسرائیل کے حال ہی میں تین عرب ممالک کے ساتھ امن معاہدوں میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
'ڈی‘ کون ہیں؟
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے”'ڈی‘ موساد کے ایک تجربہ کار اور جہاں دیدہ افسر ہیں۔"
اسرائیل کے اخبار یروشلم پوسٹ کے مطابق 'ڈی‘ نے اعلی ترین اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی خفیہ یونٹ میں خدمات انجام دی ہیں۔
نئے ڈائریکٹر نے مبینہ طور پر موساد کی مختلف یونٹوں میں بھی کام کیا ہے۔ ان میں سومیٹ ڈویزن بھی شامل ہے جو جاسوسوں کی تقرری کرتا ہے۔ وہ کیشیٹ الیکٹرانک جاسوسی کے شعبے کے نائب سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق موساد کے سابق سربراہ ڈینی یاتوم اور سابق نائب سربراہ ریم بن بارک، دونوں نے'ڈی‘ کی موساد کے نئے سربراہ کے طورپر تقرری کا خیر مقدم کیا ہے۔
اشتہار
سابق ڈائریکٹر یوسی کوہن کون ہیں؟
کوہن کو 2015 میں موساد کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل وہ وزیر اعظم نیتن یاہو کے قومی سلامتی مشیر بھی رہ چکے ہیں اور موساد کے نائب سربراہ کے طورپر بھی خدمات انجام دی تھیں۔
کوہن نے عرب دنیا کے متعدد ممالک کے دورے کیے تھے۔ انہوں نے امریکا کی ثالثی میں بالخصوص بحرین اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات قائم کرانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ گزشتہ ماہ خفیہ بات چیت کے لیے نیتن یاہو کے ریاض دورے کے دوران کوہن بھی مبینہ طور پر ان کے ساتھ تھے۔ سعودی عرب نے اس ملاقات کی تردید کی تھی۔
ایران نے گذشتہ ماہ اپنے جوہری سائنس دان محسن فخری زادہ کے قتل کا الزام بھی کوہن کے زیرقیادت موساد پر عاید کیا تھا۔
اب کیا ہوگا؟
سرکاری بیان کے مطابق سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ایلیزر گولڈبرگ کی صدارت میں ایک خصوصی کمیٹی، سول سروسز ایڈوائزری کمیٹی، کوہن کے جانشین کی تقرری کو منظوری دے گی۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق اگر کمیٹی نے منظوری دے دی تو نئے ڈائریکٹر جون 2021 میں یوسی کوہن کے سبکدوش ہونے کے بعد اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔
ج ا / ص ز (ڈی پی اے، اے ایف پی)
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔