پاکستان کی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کی طرف سے شروع کیا گیا ڈیجیٹل مردم شماری کا پائلٹ فیز تکمیل کے قریب ہے، جس کے بعد امید پیدا ہو چلی ہے کہ ملک میں اب جدید بنیادوں پر مردم شماری ممکن ہو سکے گی۔
اشتہار
واضح رہے کہ نادرا ڈیجیٹل مردم شماری کے پائلٹ پراجیکٹ کی تکمیل کے طرف گامزن ہے، جو اس نے 20جولائی کو 429 بلاکس میں شروع کیا تھا۔ یہ بلاکس تراسی تحصیلوں پر مشتمل تھے، جن کا انتخاب چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقوں سے کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ 2017ء کی مردم شماری پر کئی حلقوں کی طرف سے تنقید کی گئی تھی اور سندھ سے متحدہ قومی موومنٹ نے خصوصی طور پریہ سوال اٹھایا تھا کہ کراچی کی آبادی کو کم کرکے دکھایا گیا ہے۔ جب متحدہ قومی موومنٹ نے تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی اتحاد کیا تو اس اتحاد کی مختلف شرائط میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ مردم شماری کو دوبارہ کرایا جائے۔
رواں برس جنوری میں مشترکہ مفادات کونسل نے ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری دی تھی، جس کی سفارش متعلقہ اداروں نے کی تھی۔ ڈیجیٹل مردم شماری میں مردم شماری کے بلاکس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جبکہ فیلڈ فورس میں بھی اضافہ متوقع ہے۔
واضح رہے کہ 2017ء کی مردم شماری کے پہلے مرحلے میں 79,773 بلاک تھے جو 61 اضلاع پر مشتمل تھے۔ مردم شماری کے دوسرے مرحلے میں ان بلاکس کی تعداد 89,170 تھی اور یہ 89 اضلاع پر مشتمل تھے۔
ڈیجیٹل مردم شماری کیسے ہوگی؟
ڈپٹی ڈائریکٹر 'جنرل بیورو آف سینسز‘ رابعہ اعوان کے مطابق اب ان بلاکس کی تعداد تقریبا ایک لاکھ 80 ہزار ہوگی اور ایک لاکھ بیس ہزار کی فیلڈ فورس ہوگی، جو اس مردم شماری میں حصہ لے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس ایک لاکھ بیس ہزار کی فیلڈ فورس کو ٹیبلٹس دیے جائیں گے، ایک شمار کرنے والے کو پندرہ دن میں ایک مردم شماری کا بلاک ختم کرنا ہوگا جب کہ دوسرے بلاک میں کام مکمل کرنے کے لیے بھی 15 دن دیے جائیں گے۔‘‘
اشتہار
ڈیجیٹل مردم شماری کا فائدہ
ادارہ شماریات کے ایک سابق سینیئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مردم شماری کے پرانا طریقہ کار میں پیسہ بھی بہت لگتا تھا جبکہ وقت بھی بہت درکار ہوتا تھا۔ ہمیں بڑے پیمانے پر فارمز چھپوانا پڑتے تھے، اسٹیشنری خریدنا پڑتی تھی، ان فارمز کے لیے بڑے بڑے ہالوں میں جگہ بنانا پڑتی تھی۔ فیلڈ کارکنان کو پینسل، پیپرز، اسٹیشنری اور بہت سارا دوسرے سامان دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ان میں لکھائی کا بھی مسئلہ تھا۔ بعض اوقات لکھائی درست نہیں ہوتی تھی۔‘‘
اس افسر کے مطابق اب اگر ڈیجیٹل طریقے سے یہ مردم شماری ہو گی تو اس میں بہت آسانی ہوجائے گی اور ''ٹرانسپورٹ اور اسٹوریج کے اخراجات کم ہوں گے۔ وقت بچے گا اور غلطیاں بھی بہت کم ہوں گی۔‘‘
بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی
تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ جب تک پاکستان بنیادی انفراسٹرکچر میں تبدیلیاں نہیں کرتا، مردم شماری کا یہ طریقہ کامیاب نہیں ہوگا۔ سرویز کا وسیع تجربہ رکھنے والے ماہر عامر حسین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ اس مردم شماری کے عمل کو کامیاب بنائے تو اس کو بہت ساری تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مردم شماری یا سروے کے دوران آپ کو بہت سارے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ فیلڈ کے کارکنان کو مناسب پیسے نہ دیں یا پیسے وقت پر ادا نہ کریں تو وہ ٹیبلٹ لے کے بھاگ جاتے ہیں۔ مردم شماری کے لیے اسٹاف انتہائی تربیت یافتہ ہو، مقامی آبادی سے ہو اور سب سے اہم بات سرور کی اسٹوریج گنجائش بہت زیادہ ہو۔‘‘
سن 2030 میں پاکستانی شہروں کی متوقع آبادی
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2047 میں پاکستان کے دیہی اور شہری علاقوں میں آباد انسانوں کی تعداد برابر ہو جائے گی۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے بارہ برس بعد پاکستانی شہروں کی آبادی کتنی ہو گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1- کراچی
کراچی قیام پاکستان کے بعد سے اب تک آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ سن 2018 میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ چون لاکھ ہے جو سن 2030 تک دو کروڑ بتیس لاکھ ہو جائے گی۔ اقوام متحدہ کے مطابق تب کراچی آبادی کے اعتبار سے دنیا کا تیرہواں سب سے بڑا شہر بھی ہو گا۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
2- لاہور
پاکستانی صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور ایک کروڑ سترہ لاکھ نفوس کے ساتھ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ سن 2030 تک لاہور کی آبادی قریب دو کروڑ ہو جائے گی۔ پچاس کی دہائی میں لاہور کے شہریوں کی تعداد آٹھ لاکھ چھتیس ہزار تھی اور وہ تب بھی پاکستان کا دوسرا بڑا شہر تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
3- فیصل آباد
فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے اور بارہ برس بعد بھی آبادی کے اعتبار سے یہ اسی نمبر پر رہے گا۔ تاہم فیصل آباد کی موجودہ آبادی 3.3 ملین ہے جو اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سن 2030 تک قریب پانچ ملین ہو جائے گی۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
4- پشاور
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی موجودہ آبادی بھی دو ملین سے کچھ زائد ہے اور اس وقت یہ ملک کا چھٹا بڑا شہر بھی ہے۔ تاہم سن 2030 میں اس شہر کی آبادی قریب تینتیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہو گی اور یہ ملک کا چوتھا بڑا شہر بن جائے گا۔
تصویر: DW/F. Khan
5- گوجرانوالہ
سن 1950 میں گوجرانوالہ ایک لاکھ اٹھارہ ہزار کی آبادی کے ساتھ پاکستان کا نواں سب سے بڑا شہر تھا تاہم اب یہاں دو ملین سے زائد لوگ بستے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بارہ برس بعد اس شہر کی آبادی بتیس لاکھ چونسٹھ ہزار تک پہنچ جائے گی اور یہ ملک کا پانچواں بڑا شہر ہو گا۔
تصویر: FAROOQ NAEEM/AFP/Getty Images
6- راولپینڈی
اکیس لاکھ چھپن ہزار کی آبادی کے ساتھ راولپنڈی پاکستان کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ بارہ برس بعد راولپنڈی کی آبادی تین ملین سے زائد ہو جائے گی لیکن تب یہ ملک کا چھٹا بڑا شہر ہو گا۔ 1950ء میں راولپنڈی کی آبادی دو لاکھ تینتیس ہزار تھی اور تب آبادی کے اعتبار سے یہ ملک کا تیسرا بڑا شہر تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/PPI
7- ملتان
ملتان جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا اور ملک کا ساتواں بڑا شہر ہے جس کی موجودہ آبادی قریب دو ملین ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سن 2030 میں ملتان کی آبادی قریب انتیس لاکھ ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/SS Mirza
8- حیدر آباد
صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدر آباد سترہ لاکھ بیاسی ہزار نفوس کے ساتھ اس برس ملک کا آٹھواں بڑا شہر ہے۔ سن 2030 تک اس شہر کی آبادی چھبیس لاکھ تیس ہزار ہو جائے گی اور وہ تب بھی ملک کا آٹھواں بڑا شہر ہی ہو گا۔
تصویر: Imago/Zumapress
9- اسلام آباد
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی موجودہ آبادی ایک ملین سے زائد ہے تاہم اگلے بارہ برسوں میں سولہ لاکھ بہتر ہزار نفوس کے ساتھ یہ شہر ملک کا نواں بڑا شہر بن جائے گا۔ رواں صدی کے آغاز میں اسلام آباد کے شہریوں کی تعداد پانچ لاکھ انہتر ہزار تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Reza
10- کوئٹہ
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی آبادی رواں برس ہی ایک ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ بارہ برس بعد کوئٹہ کی آبادی سولہ لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ جب کہ سن 1950 میں کوئٹہ کی آبادی 83 ہزار تھی۔
تصویر: shal.afghan
11- بہاولپور
پاکستانی صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر بہاولپور کی آبادی بھی اگلے چند برسوں میں ایک ملین سے زیادہ ہو جائے گی اور سن 2030 تک یہاں کی آبادی بارہ لاکھ چھیالیس ہزار نفوس تک پہنچ جائے گی۔ رواں برس کی آبادی سات لاکھ چھیانوے ہزار ہے جب کہ 1950 میں بہاولپور کی آبادی محض بیالیس ہزار تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
12- سیالکوٹ
صوبہ پنجاب ہی کے شہر سیالکوٹ کی آبادی بھی اگلے بارہ برسوں میں ایک ملین سے زائد ہو جائے گی۔ اس برس تک سیالکوٹ چھ لاکھ چھہتر ہزار نفوس کے ساتھ ملک کا تیرہواں بڑا شہر ہے۔ 1950ء میں سیالکوٹ کی آبادی ایک لاکھ پچپن ہزار تھی۔
تصویر: Reuters
13- سرگودھا
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی صوبہ پنجاب کی آبادی بھی سن 2030 میں ایک ملین سے کچھ کم (نو لاکھ نوے ہزار) تک پہنچ جائے گی۔ اس برس یعنی 2018ء میں سرگودھا کی آبادی چھ لاکھ 77 ہزار ہے اور یہ ملک کا بارہواں بڑا شہر ہے۔ سن 1950 میں یہاں صرف چوہتر ہزار شہری مقیم تھے۔
تصویر: Reuters/Stringer
14- لاڑکانہ
صوبہ سندھ ہی کے شہر لاڑکانہ کی موجودہ آبادی پانچ لاکھ چھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے جو اب سے بارہ برس بعد سات لاکھ بیاسی ہزار تک پہنچ جائے گی۔ 1950 میں لاڑکانہ کی آبادی محض تینتیس ہزار تھی۔
تصویر: AP
15- سکھر
سن 2030 میں پاکستان کے صوبہ سندھ میں واقع شہر سکھر کی آبادی سات لاکھ ساٹھ ہزار تک پہنچ جائے گی۔ سن 1950 میں اس شہر کی آبادی محض چھہتر ہزار نفوس پر مشتمل تھی جب کہ رواں برس سکھر کی آبادی پانچ لاکھ چودہ ہزار ہے۔
تصویر: DW
15 تصاویر1 | 15
کیا ڈیجیٹل مردم شماری سے سے شکایت دور ہوں گی؟
گزشتہ مردم شماری پر ملک کی کئی سیاسی جماعتوں نے اعتراضات اٹھائے تھے۔ تاہم بیورو آف سینسز کے ایک اور افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ڈیجیٹل مردم شماری سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جن سیاسی جماعتوں نے یہ اعتراضات اٹھائے تھے ان کو ٹیکنیکل پوائنٹس نہیں معلوم تھے۔ مثال کے طور پر لاہور کی آبادی زیادہ اس لیے ہوئی کیونکہ پنجاب حکومت نے ٹھوکر نیازبیگ اور جوہرٹاؤن سمیت کئی علاقے، جو نوے کی دہائی میں دیہی علاقے کہلاتے تھے، ان کو شہری علاقوں میں شامل کیا، جس کی وجہ سے لاہور کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ بن گئی۔ اگر وہ ان کو شہری علاقوں میں شامل نہ کرتے، تو غالباﹰ لاہور کی آبادی تقریبا 70 یا 77 لاکھ رہتی۔‘‘
اس افسر کے بقول سندھ میں ایسا نہیں ہوا اور سندھ میں جو علاقے کراچی یا حیدرآباد میں 90 کی دہائی میں دیہی علاقوں میں شمار ہوتے تھے، وہ اب بھی انہی علاقوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔