1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈیجیٹل مردم شماری کے باوجود علاقائی زبانیں نظر انداز کیوں؟

15 دسمبر 2024

پاکستان میں تمام نہ سہی لیکن مقامی زبانوں کی ایک بڑی تعداد مردم شماری کا حصہ بننے سے محروم رہ جاتی ہے۔ یہ صورتحال ان زبانوں کے بولنے والے لاکھوں افراد میں مایوسی اور بے چینی کا سبب ہے۔

علاقائی زبانوں کو نظر انداز کرنا پاکستان میں ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے
علاقائی زبانوں کو نظر انداز کرنا پاکستان میں ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہےتصویر: DW/I. Jabeen

 پاکستان میں مردم شماری کے دوران علاقائی زبانوں کو نظر انداز کرنا ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے، جو اب  ایک بار پھر سے زیر بحث ہے۔ حال ہی میں ادارہ شماریات کی ویب سائٹ پر 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری کے تفصیلی نتائج شائع ہوئے جن میں چودہ زبانوں کی نمائندگی موجود ہے، مگر باقی ساٹھ زبانیں نظر انداز کر دی گئی ہیں۔

علاقائی زبانیں پہچان کی متلاشی

پاکستان میں تمام نہ سہی لیکن زبانوں کی بڑی تعداد مردم شماری کا حصہ کیوں نہیں بنتی؟ اس حوالے سے ادارہ شماریات کا موقف رہا ہے کہ کاغذی فارم پر اتنی گنجائش نہیں ہوتی تھی کہ زیادہ زبانیں شامل کی جائیں۔  پھر 2023 میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل مردم شماری کا تجربہ کیا گیا، جس میں اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، کشمیری، سرائیکی، ہندکو اور بروہی کے ساتھ شینا، بلتی، کالاشا اور کوہستانی کا اضافہ کیا گیا۔  ماہرین لسانیات کے مطابق یہ توقع سے بہت کم پیش رفت ہے۔

پہلے ہی شناخت کے مسئلے سے دوچار مقامی زبانوں کے بولنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو ان کی نئی نسلوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہےتصویر: Farooq Azam/DW

موازنے کی خاطر ڈی ڈبلیو اردو نے بھارت کی ہوم منسٹری کی ویب سائٹ کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ وہاں 2011 کی مردم شماری میں نہ صرف مادری زبان بلکہ ہر فرد کو 'دوسری زبان‘ اور 'تیسری زبان‘ بتانے کا آپشن بھی دیا گیا تھا۔

 انڈیا نے نہ صرف پورے ملک میں بولی جانی والی 1369 سے زائد زبانوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا بلکہ 19 ہزار سے زائد لہجے بھی شناخت کیے اور انہیں ریکارڈ کا حصہ بنایا جو ڈیجیٹل آرکائیو سے کوئی بھی ریسرچر دیکھ سکتا ہے۔ مگر پاکستان میں یہ تعداد چودہ پر رکی ہوئی ہے۔

اس صورتحال کی وجہ سے چھوٹی زبانیں بولنے والی برادریاں اور ماہرین لسانیات ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج سے خوش نہیں ہیں۔

فورم فار لنگویج انیشیٹو کے ڈائریکٹر اور ماہر لسانیات فخرالدین اخونزادہ ڈی ڈبلیو اردو کوبتایا، ”ہمیں توقع تھی کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے بعد علاقائی زبانوں کو نظر انداز کرنے کا مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن یہ ویسے کا ویسا ہے۔ ادارہ شماریات نے ہمیشہ یہ عذر تراشا کہ فارم میں خانے نہیں بڑھا سکتے، ڈیجیٹل ٹولز میں تو سپیس کا مسئلہ ہی نہیں اس کے باوجود کوئی قابل ستائش پیش رفت نہیں ہوئی۔"

وہ کہتے ہیں، ”جو نئی زبانیں شامل کی گئیں وہ خوش آئند ہے مگر پالیسی کیا تھی؟ کس بنیاد پر کچھ زبانوں کو نظر انداز کیا گیا اور کچھ زبانوں کو رکھا گیا؟ اس حوالے سے کسی قسم کا سرکاری موقف سامنے نہیں۔ یہ چھوٹی زبانیں بولنے والوں میں مزید احساس محرومی پیدا کرے گا۔"

بھارت میں علاقائی زبانوں کا ںہ صرف تہوار بہت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے بلکہ یہ قومی مردم شماری کا بھی ایک مستقل حصہ ہیںتصویر: Saytajit Shaw/DW

 لوئر چترال کے ایک مقامی سکول کی ٹیچر ثوبیہ طاہر ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتی ہیں، ”میری مادری زبان کھوار ہے، جب بھی مردم شماری والے آئے 'دیگر‘ کے خانے کو ٹِک کیا، اب بھی یہی ہوا۔ دیگر زبانوں کے درمیان اپنی زبان نہ دیکھنا تکلیف دہ ہے۔ ہم زبان کے حوالے سے اس لیے حساس ہیں کہ ایک چیز ہماری شناخت کا بنیادی ترین جزو ہے، جب اسے تسلیم نہیں کیا جا رہا تو یہ ہماری شناخت کو مسترد کرنے جیسا ہے۔"

علاقائی زبانوں کے شمار میں ناکامی کی وجوہات کیا؟

ڈی ڈبلیو اردو نے  ادارہ شماریات کے دو مختلف ممبران سے رابطہ کر کے موقف لینے کی کوشش کی جن میں سے ایک ممبر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ”ہماری پاس صلاحتیں اور وسائل محدود ہوتے ہیں، بجٹ کا مسئلہ ہے۔ جب کاغذ کے فارم پر مردم شماری ہوتی تھی تب اس لیے بھی خانے نہیں بڑھا سکتے تھے کہ وہ ہمیں بہت مہنگا پڑتا تھا۔

”جہاں تک ڈیجیٹل مردم شماری کی بات ہے تو یہ پہلا تجربہ تھا، ہمیں آخری وقت تک خدشات لاحق رہے کہ درست طریقے سے ہو پائے گی یا نہیں۔ یہ تجرباتی سٹیج تھی اس لیے کوئی بڑا رسک لے نہیں سکتے تھے۔ خوف تھا کہ یہ نہ ہو کام زیادہ پھیلا دیا جائے تو سمیٹنے میں ہی نہ آئے۔"

فخرالدین اخونزادہ کہتے ہیں، ”صلاحیت کا پتہ یہاں سے لگتا ہے کہ انہوں نے زبانوں کے نام تک غلط لکھے ہوئے۔ یہ ایسے ہی جیسے آپ کو کسی چیز کی پرواہ نہ ہو، آپ بس کام نمٹا دیں جیسے سر سے مصیبت اتاری جا رہی ہو۔"

سماجی دانشور احمد اعجاز اسے ریاست کے مجموعی رویے سے جوڑتے ہیں ہوئے کہتے ہیں، ”ہمارے ہاں مقامی شناختوں کی حوصلہ افزائی کا کوئی کلچر ہی نہیں تو علاقائی زبانوں کو کون پوچھتا ہے۔ کتنی زبانیں ہیں؟ کون کون سی زبانیں خطرے سے دوچار ہیں؟ یہ سب سوال مقامی برادریوں کے ہیں، ماہرین لسانیات کے یا مٹھی بھر دانشوروں کے۔ بیوروکریسی یا صاحبان اختیار کے لیے سرے سے یہ کوئی سوال ہی نہیں۔"

پاکستان میں مادری دن کے حوالے سے میلوں کا انعقاد تو دیکھنے میں آتا ہے لیکن ان زبانوں کی سرکاری سطح پرپزیرائی ایک بڑا مسئلہ رہی ہےتصویر: LOK VIRSA

شناخت تسلیم کروانے کے لیے عدالتوں سے رجوع

2017 کی مردم شماری میں جب 'کھوار‘ کو نظر انداز کیا گیا تو ایڈوکیٹ شاہد علی یفتالی نے عدالتی دراوازہ کھٹکھٹایا۔ یہ زبان چترال اور گلگت بلتستان میں وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے۔

 ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں، ”تب کچھ اور برادریاں اپنی زبانوں کے لیے پشاور ہائیکورٹ آئی تھیں، مجھے لگا میری زبان بھی نظر انداز ہو رہی ہے جس کے بولنے والے آٹھ سے دس لاکھ کے درمیان ہیں۔ میں نے بھی درخواست دائر کر دی۔ فیصلہ میرے حق میں آیا اس کے باوجود 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری میں 'کھوار‘ کو شامل نہیں کیا گیا۔"

وہ کہتے ہیں، ”ہم نے گاوری، توروالی، اور گوجری زبانوں کو بھی مردم شماری کے فارم میں شامل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ اسی طرح اب ایک شخص نے 'پہاڑی‘ کو شامل کرنے کے لیے پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔ 'کھوار‘ کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے ہمیں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کا انتظار ہے۔"

  فخرالدین اخونزادہ کہتے ہیں، ”یہ ایسی بات نہیں تھی جس کے لیے مقامی برادریوں کو مہم چلانی پڑے اور عدالتوں سے رجوع کرنا پڑے۔ لیکن ایسا لگتا ہے اب یہی راستہ ہے۔ پہلے ڈیجیٹل مردم شماری کا انتظار تھا، پھر عدالتی فیصلے کا، اب مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کا، پتہ نہیں یہ انتظار کب ختم ہو گا لیکن ہم اپنی جد و جہد جاری رکھیں گے، یہ ہمارا بنیادی حق ہے کہ ہماری شناخت کو تسلیم کیا جائے۔"

پاکستانی فلمی تاریخ کی پہلی بلوچی فلم ’دودا‘

04:49

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں