پاکستان میں تیز رفتار ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن
27 جنوری 2025
دنیا کے بہت سے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی نہ صرف ڈیجیٹل تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے بلکہ پوری طرح اس عمل کا حصہ بھی ہے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک میں آنے والی ڈیجیٹل تبدیلیاں کیسی، کس رفتار کی حامل اور کتنی پائیدار ہیں، اس بارے میں ایک مربوط جائزہ پاکستان میں حال ہی میں تیارکردہ پہلی ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن رپورٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ اپنی نوعیت کی یہ پہلی رپورٹ سماجی ترقی میں ٹیکنالوجی کی ترویج پر کام کرنے والی تنظیم 'ادراک‘ اور فریڈم نیٹ ورک کے اشتراک سے جاری کی گئی اور اس میں پاکستان میں ہونے والی ڈیجیٹل ترقی اور تنزلی کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 200 ممالک میں سے ان پہلے دس ممالک میں شامل ہے، جہاں سب سے زیادہ تعداد میں شہری انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور مربوط ڈیجیٹل نظام کا حصہ ہیں۔ تقریباﹰ 240 ملین کی آبادی والے ملک پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی موجودہ تعداد 132.5 ملین ہے اور صرف اس تعداد کے لحاظ سے ہی پاکستان ایشیا میں چھٹے جبکہ دنیا بھر میں دسویں نمبر پر ہے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل اسپیسز میں خواتین کی شرکت 'خطرناک حد تک کم'
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2024 میں ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے عمل کے تجزیے سے کئی مثبت نتائج سامنے آئے۔ ان میں سرفہرست 'ڈیجیٹل نیشن پاکستان‘ نامی وہ نیا قانونی بل ہے، جو ملکی پارلیمان میں پیش کیا گیا۔ اس بل میں ہر شہری کو ایک ڈیجیٹل شناخت اور ریاست کی طرف سے وعدہ کردہ خدمات اور سہولیات ڈیجیٹل صورت میں بھی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
پاکستانی پارلیمان میں یہ قانون ابھی منظور نہیں ہوا کیونکہ ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیموں کو اس کے کچھ حصوں پر اعتراضات ہیں۔ پھر بھی یہ مسودہ قانون اس لیے ایک تاریخی سنگ میل ہے کہ اس میں پاکستانی شہریوں کو ڈیجیٹل دور کے ڈیجیٹل حقوق دینے کی بنیادی ضمانت کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
ڈیجیٹل مردم شماری کے باوجود علاقائی زبانیں نظر انداز کیوں؟
پاکستان کے 'ادراک‘ اور فریڈم نیٹ ورک نامی غیر سرکاری اداروں کی تیار کردہ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2024 میں اسلام آباد میں وفاقی اور پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ کی صوبائی حکومتوں نے عام شہریوں کے لیے اپنے بہت سے اداروں کی خدمات ڈیجیٹلائز بھی کر دیں، جس کے بعد عام شہریوں کے بہت سے سرکاری یا نیم سرکاری کام گھر بیٹھے بٹھائے ہی ہونے لگے۔ اس سلسلے میں اہم دستاویزات کی تصدیق، پیدائش، موت اور شادی کے سرٹیفیکیٹس کا اجراء، زمین کے ملکیتی حقوق کی تصدیق، گاڑیوں کی رجسٹریشن، پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی اور الیکٹرانک اسٹامپ پیپرز کا استعمال نمایاں مثالیں ہیں۔
یہی نہیں ان تبدیلیوں کے علاوہ ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے مقدمات کی ویڈیو لنک کے ذریعے سماعتیں بھی کی گئیں جبکہ خواتین کے آن لائن ہراساں کیے جانے اور چائلڈ پورنوگرافی کے خلاف عدالتوں نے جامع فیصلے سنائے اور سائبر کرائمز کے شکار افراد کو انصاف فراہم کیا۔
پاکستان: مصنوعی ذہانت(اے آئی) پالیسی جلد نافذ کرنے کا اعلان
گزشتہ برس پاکستان میں ٹیلی مواصلاتی شعبے نے مزید ترقی کی، اس میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا اور صارفین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بھی مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی۔
مالیاتی خدمات کے حوالے سے اس رپورٹ میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق گزشتہ برس ملک میں رقوم کی منتقلی کے تمام واقعات میں سے 86 فیصد ڈیجیٹل ٹرانسفر آرڈرز تھے اور اس شرح کا کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے باآسانی موازنہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے عمل میں پچھلا سال پاکستان کے لیے صرف اچھا ہی نہیں رہا بلکہ اس میں کئی طرح کے شدید مسائل بھی دیکھے گئے۔ ڈیجیٹل تبدیلی کے عمل کے لیے بار بار جھٹکوں کا باعث بننے والا ایک سنگین مسئلہ ملک میں انٹرنیٹ کی بار بار کی بندش یا اس کی رفتار کا بہت کم کر دینا رہا۔ اس وجہ سے ملک میں ڈیجیٹل بزنس کا بڑھتا ہوا رجحان متاثر ہوا اور کاروباری شعبے کی طرف سے اس کے خلاف باقاعدہ احتجاج بھی کیا گیا۔
پاکستان: وی پی این رجسٹریشن، صارفین کا تحفظ یا نگرانی؟
انٹرنیٹ کی بندش سے کوئی ڈیجیٹل بزنس کس حد تک متاثر ہوتا ہے، یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا ڈیجیٹل رائٹس کے لیے سرگرم وقاص نعیم سے۔ انہوں نے کہا،''انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے ڈیجیٹل کاروبار کے حجم میں ایک بلین ڈالر سے بھی زائد کی کمی ہوئی۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر اظہار رائے کی پالیسی کی سطح پر بھی شدید بندشیں لگائی گئیں، وہ بھی ایک ایسے سال میں جب ملک میں عام انتخابات کے باعث سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔
اس کے علاوہ سیاسی رائے کے اظہار پر بھی پابندیاں لگیں اور صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف مقدمات تک درج کیے گئے۔ بہت منفی بات تو یہ بھی تھی کہ عین الیکشن کے روز بھی دن بھر انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز بری طرح متاثر رہیں۔ تو پاکستان کی ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے عمل میں حالت دو قدم آگے اور ایک قدم پیچھے جانے جیسی رہی اور یہ عمل مجموعی طور پر اتنا آگے نہ بڑھ سکا، جتنا یہ جا سکتا تھا۔‘‘
مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والی لیلیٰ خالد نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ''ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے عمل کا عروج آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا اے آئی کو اس عمل میں مرکزی کردار دینا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس پاکستانی عوام اور حکومت میں اے آئی کے بارے میں تجسس اور خواہش میں اضافہ تو ہوا، مگر حکومت وعدے کے باوجود پہلی نیشنل آرٹیفیشل انٹیلیجنس پالیسی کا اعلان کرنے میں ناکام رہی۔
پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کی ’’ڈیجیٹل محاصرے‘‘ کی شکایت
لیلیٰ خالد کے بقول، ''پاکستان کو اگر پائیدار کامیابی والی ڈیجیٹل معیشت بننا ہے، تو مصنوعی ذہانت کو ڈیجیٹل تبدیلی کے عمل میں مرکزی حیثیت دینا لازمی ہو گا۔‘‘
ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم پاکستانی تنظیم 'بولو بھی‘ کے اسامہ خلجی نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے زور دے کر کہا، ''ڈیجیٹل رائٹس کی ضمانت اور عملی طور پر یہ حقوق دیے بغیر ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کا عمل مکمل اور پائیدار ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے لیے تیز رفتار انٹرنیٹ کی بلا تعطل فراہمی بھی لازمی ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ جب تک پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن کا ایسا قانون نہیں بنتا جس میں ہر کسی کے ڈیجیٹل پرائیویسی رائٹس کو یقینی بنایا گیا ہو، تب تک پاکستان میں ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کا عمل نامکمل ہی تصور ہو گا۔‘‘
پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری: کیا شکایات کا ازالہ ہو سکے گا؟
پاکستان میں ’ڈیجیٹل دہشت گردی' کے خلاف خصوصی عدالتیں قائم
اسی موضوع پر پاکستانی سینیٹ کے سابق رکن فرحت اللہ بابر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں کہا، ''ہر شہری کی انٹرنیٹ تک رسائی اور اعلیٰ معیار کے انٹرنیٹ رابطوں کی دستیابی آج کے ڈیجیٹل دور میں ہر انسان کا بنیادی حق تصور کیا جانا چاہیے۔ ہمیں ڈیجیٹل حقوق کی ضمانتوں کو آئینی فریم ورک میں لانے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی نیشنل ڈیجیٹل ڈائیلاگ کو عملی طور پر ترجیح دینے کی بھی۔‘‘