ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے بغیر جرمنی میں زراعت اب ناقابلِ تصور
31 جولائی 2015اس طرح کی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے والوں میں جرمن شہر بِیلےفیلڈ کے مضافات میں آباد جرمن کاشتکار ڈینس سٹروتھ لیوکے بھی شامل ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک ڈیری فارم کا مالک ہے اور گزشتہ چند برسوں سے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد لے رہا ہے۔ اس اڑتیس سالہ کسان کے ساتھ ساتھ اُس کے کئی ساتھی جرمن کاشتکاروں کی نظر میں بھی اب اس ٹیکنالوجی کے بغیر وہ اپنے کام کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں ڈینس سٹروتھ لیوکے کے ڈیری فارم کی تفصیلات بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ درمیانے درجے کے اس فارم میں کوئی 135 گائیں ہیں۔ پہلے یہ چاروں طرف سے بند ایک ایسے باڑے میں کھڑی ہوتی تھیں، جسے عشروں پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔ 2012ء میں ان کسانوں نے ایک جدید اور کھلا باڑا تعمیر کیا۔ اب اس فارم کی گائیں ان دونوں باڑوں کے درمیان آزادانہ چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔
ان میں سے آدھی گائیں ایسی ہیں، جن کے گلے میں ایک خاص قسم کا پٹا ہے۔ یہ ڈیجیٹل پٹا ان گائیوں کی نقل و حرکت کی تمام تر تفصیلات کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ جب ان میں سے کوئی گائے معمول سے زیادہ حرکت کرتی ہے تو یہ پٹا ڈینس سٹروتھ لیوکے کے موبائل فون پر ڈیٹا بھیجنا شروع کر دیتا ہے۔ اڑتیس سالہ جرمن کسان کے مطابق ’اِس سے پتہ چل جاتا ہے کہ اب یہ گائے اپنے نَر کے ساتھ ملاپ کے لیے تیار ہے اور مَیں اُس خصوصی ماہر کو بُلوا سکتا ہوں، جو مصنوعی طریقے سے سپرمز گائے کے جسم میں منتقل کرنے کا کام کرتا ہے‘۔
یہ خصوصی سگنل ملنے کے بعد گائے کے جسم میں مصنوعی طریقے سے نَر کے سپرمز کی منتقلی کے لیے محض چند گھنٹے کا ہی وقت ملتا ہے۔ جرمن کسان کا کہنا ہے:’’جب سے ہم نے یہ ڈیجیٹل سہولت حاصل کی ہے، گائیوں کے حاملہ ہونے کی شرح پچانوے فیصد تک پہنچ گئی ہے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً اُن تمام گائیوں کے جسم میں سپرمز کی منتقلی کا عمل کامیابی سے مکمل ہو جاتا ہے، جن میں جنسی سرگرمی دیکھنے میں آتی ہے۔ جرمن کسان کا کہنا ہے کہ پہلے یہ شرح نمایاں طور پر کم ہوا کرتی تھی۔ اس طرح کے ڈیجیٹل پٹے کی قیمت 140 یورو ہے۔
سپرمز کی کامیاب منتقلی کی زیادہ بلند شرح کا مطلب ہے کہ بچھڑوں کی تعداد بھی زیادہ ہو جائے گی اور اس سے اس فارم کی آمدنی بڑھ جائے گی:’’ماضی میں ہمارے ہاں ہر گائے 422 دنوں بعد ایک بچھڑے کو جنم دیتی تھی، اب دنوں کی تعداد کم ہو کر 388 رہ گئی ہے۔‘‘
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے زرعی چیمبر کے ترجمان بیرنہارڈ ریوب کے مطابق ’پورے صوبے میں کاشتکاروں کے ہاں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال بہت عام ہو چکا ہے‘۔ اُنہوں نے بتایا کہ جو بھی نئے باڑے تعمیر ہو رہے ہیں، اُن تمام میں لازمی طور پر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔ ایک سروے کے مطابق جرمنی میں ہر پانچواں کاشتکارکسی نہ کسی طرح کی ڈیجیٹل سہولتوں سے استفادہ کر رہا ہے۔
مختلف ’اَیپس‘ گائیوں کے دودھ اور اُن کی صحت کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ آیا کسی بچھڑے کو جنم دینے کے بعد گائے معمول کے مطابق چارہ کھا رہی ہے یا اُس نے چارہ کم کر دیا ہے، ایک اَیپ اس حوالے سے بھی تمام تر معلومات کسان کو پہنچاتی ہے۔ باڑوں میں خوراک کی فراہمی کے خود کار نظاموں کے ساتھ ساتھ خود کار طریقے ہی سے باڑے کے اندر درجہٴ حرارت کو بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
لائیو اسٹاک اور ڈیری فارمز کے ساتھ ساتھ کاشت کاری میں بھی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے۔ بیرنہارڈ ریوب کے مطابق ’جدید تھریشر مشینوں کے کاک پِٹ میں اُس سے کہیں زیادہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی موجود ہے، جتنی کہ چاند پر جانے والے خلائی جہاز میں نصب تھی‘۔
سافٹ ویئر بنانے والوں کے لیے بھی نئے امکانات پیدا ہو گئے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق آئندہ دَس برسوں کے اندر اندر سافٹ ویئر بنانے والی کمپنیوں کو صرف زراعت کے شعبے میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے شعبے میں تقریباً تین ارب یورو کی آمدنی حاصل ہو سکے گی۔
پہلے جب کسی گائے کو بچھڑا دینا ہوتا تھا تو ڈینس سٹروتھ لیوکے کی ساری رات باڑے کی جانب بھاگتے دوڑتے گزر جاتی تھی۔ اب وہ آرام سے سوتا ہے کیونکہ جیسے ہی بچھڑے کو جنم دینے کا وقت ہوتا ہے، اس جرمن کسان کا موبائل فون اُسے فوراً اس بات کی اطلاع دے دیتا ہے۔