ڈیزل اسکینڈل: جرمن کار ساز کمپنی آؤڈی کے سربراہ گرفتار
19 جون 2018
جرمنی میں مسلسل پھیلتے جا رہے ڈیزل اسکینڈل میں اب معروف کار ساز ادارے آؤڈی کے سربراہ رُوپرٹ شٹاڈلر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ آؤڈی موٹر گاڑیاں تیار کرنے والے بہت بڑے جرمن صنعتی گروپ فوکس ویگن کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔
اشتہار
جرمنی کے مالیاتی مرکز فرینکفرٹ سے منگل انیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق رُوپرٹ شٹاڈلر کو پیر اٹھارہ جون کو حراست میں لیا گیا۔ اس کے بعد فوکس ویگن گروپ کے لیے اس کی یہ جدوجہد مزید مشکل ہو گئی کہ کسی طرح وہ اس اسکینڈل اور اس کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو محدود کر سکے، جس کا سامنا اب اس گروپ کی تیار کردہ موٹر گاڑیوں کے کئی برانڈز کو ہے۔
جرمنی میں موٹر گاڑیوں کے ڈیزل اسکینڈل سے مراد یہ انکشافات ہیں کہ کئی جرمن کارساز اداروں نے اپنی تیار کردہ گاڑیوں میں ایسے سافٹ ویئر لگائے تھے، جو ان گاڑیوں سے نکلنے والے زہریلے دھوئیں کی مقدار اصل سے کم بتاتے ہیں۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ زیادہ تر ڈیزل سے چلنے والی وہ گاڑیاں بھی جرمن اور یورپی منڈیوں میں کافی ماحول دوست ثابت کر کے زیادہ سے زیادہ بیچی جائیں، جو ان سے خارج ہونے والے بہت زیادہ زہریلے دھوئیں اور ماحول دشمن مادوں کے باوجود ’کم خطرناک اور زیادہ ماحول دوست‘ بنا کر پیش کی جاتی رہی تھیں۔
اس صنعتی تکنیکی دھوکا دہی میں بنیادی کام وہ سافٹ ویئر کرتا تھا، جو ان گاڑیوں سے خارج ہونے والے زہریلے مادوں کے حجم کو اصل سے کم بتاتا تھا۔
یہ کام مبینہ طور پر صرف فوکس ویگن گروپ اور اس کے ذیلی اداروں نے ہی نہیں کیا تھا بلکہ مرسیڈیز گاڑیاں بنانے والی کمپنی ڈائملر نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ اب تک ایک سرکاری حکم نامے کے ذریعے ڈائملر کو بھی یورپ بھر سے اپنی کئی لاکھ مرسیڈیز گاڑیاں واپس بلانے کا حکم دیا جا چکا ہے تاکہ ان گاڑیوں میں لگائے گئے غلط سافٹ ویئر کی اصلاح کی جا سکے۔
آؤڈی کی طرف سے اس کی گاڑیوں میں انجنوں سے خارج ہونے والے زہریلے مادوں کا حجم بتانے والا سافٹ ویئر غلط اور غیر قانونی تھا، اس امر کا انکشاف جرمنی کے متعلقہ سرکاری اداروں نے ستمبر 2015ء میں کیا تھا۔ اب آؤڈی کے سربراہ شٹاڈلر کی دفتر استغاثہ کی طرف سے تفتیشی مقاصد کے لیے گرفتاری کے بعد اس جرمن کار ساز ادارے اور اس کے مالک فوکس ویگن گروپ کو دوہرے مسائل کا سامنا ہے۔
ان میں سے ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ فی الحال شٹاڈلر کا جانشین کون ہو گا تاکہ فوکس ویگن گروپ کے اس بہت منافع بخش ذیلی ادارے کو کوئی بڑا کاروباری نقصان نہ پہنچے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ شٹاڈلر کی گرفتاری کے بعد فوکس ویگن گروپ کی ساکھ کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کو کم سے کم کیسے رکھا جائے۔
آج منگل انیس جون کو فوکس ویگن گروپ کے ایک ترجمان نے بتایا، ’’آؤڈی اور فوکس ویگن کے ڈائریکٹرز کے بورڈز اپنے مشورے جاری رکھے ہوئے ہیں اور ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ آؤڈی کا نیا چیف ایگزیکٹیو کون ہو گا۔ اس بارے میں ابھی تک صورت حال کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘‘
فوکس ویگن کی طرف سے ماضی میں کہا گیا تھا کہ اس گروپ نے اپنی گاڑیوں میں ڈیزل اسکینڈل کی وجہ بننے والا جو غلط سافٹ ویئر استعمال کیا تھا، اس کا علم صرف اس گروپ کے نچلی سطح کے مینیجرز کو ہی تھا۔ لیکن اسی سال یہ دعوے کافی حد تک غلط ثابت ہو گئے تھے۔
فوکس ویگن بیٹل، ’انقلابی‘ گاڑی
نازی سوشلسٹوں کے ایک بڑے منصوبے نے دنیا کی کار ساز صنعت میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ 82 سال قبل اڈولف ہٹلر نے ریاست لوئر سیکسنی کی ایک فیکٹری میں ’بیٹل‘ کی تیاری کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ گاڑی آج بھی سڑکوں پر دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہٹلر کی ’عوامی کار‘
یہ تصویر 26 مئی 1938ء کی ہے، جب اڈولف ہٹلر کو پہلی مرتبہ فوکس ویگن بیٹل (کےفر) کی پروٹوٹائپ ماڈل کار دکھائی گئی تھی۔ نازیوں نے فرڈینانڈ پورشے سے کہا تھا کہ وہ ایک ایسی عوامی کار تیار کریں، جو سستی بھی ہو اور پائیدار بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عوامی سے فوجی گاڑی میں تبدیلی
مسلج افواج کو حاصل فوقیت، ہٹلر کی جنگی مہمات کی وجہ سے فوکس ویگن کو عسکری گاڑیوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ ساڑھے نو سو کلو وزنی یہ گاڑی محاذوں پر پیش پیش ہوتی تھی۔ روس میں ایک فوجی کارروائی کے بعد جنرل فان مانٹوئفل اپنے سپاہیوں کے ساتھ ایک گاڑی کو کیچڑ سے نکال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
بیٹل کی مقبولیت
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے صرف دس سال بعد فوکس ویگن کی وولفسبرگ میں قائم فیکٹری میں دس لاکھ بیٹل تیار ہو چکی تھیں۔ اس کار نے جرمن معیشت کی مضبوطی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نسل در نسل
فوکس ویگن کی بیٹل کے حوالے سے سوچ یہ تھی کہ ایسی گاڑی تیار کی جائے، جس میں چار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہو، جو قابل بھروسہ بھی ہو اور سستی بھی۔ 1960ء کی دہائی میں یہ کار بہت سے خاندانوں کی خواہشات کے عین مطابق تھی۔ فوکس ویگن 1200 نامی ماڈل میں ’سن رُوف‘ بھی متعارف کرا دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہل بھی چلایا گیا
فوکس ویگن ’کےفر‘ یا بیٹل کی ایک خاصیت یہ بھی رہی ہے کہ اسے کھیتی باڑی میں بھی استعمال کیا گیا۔ 1950ء کی دہائی میں ہل چلانے اور دیگر سخت کاموں میں کسی بیل یا ٹریکٹر کے بجائے بیٹل سی مدد لی گئی۔
تصویر: ullstein bild - Teutopress
پروڈکشن کی خاتمہ
ایک دور کا خاتمہ: یکم جولائی 1974ء کو جرمن شہر وولفسبرگ میں آخری بیٹل تیار کی گئی اور اس کا نمبر تھا 11.916.519۔ تاہم اس کے بعد بھی میکسیکو اور برازیل میں بیٹل کاریں تیار کی جاتی رہیں۔
تصویر: AP
کار سے حد سے زیادہ لگاؤ
میکسیکو کی بیٹل زندہ باد۔ میکسیکو کے شہر پوئبلا میں بیٹل کی پیداوار تیس جولائی 2003ء تک جاری رہی۔ میکسیکو میں قائم فوکس ویگن کی فیکٹری کے بہت سے ملازمین ایسے تھے، جنہوں نے آپس میں ہی شادیاں کر لی تھیں اور یہ اپنی شادی میں شرکت کے لیے بھی بیٹل میں ہی بیٹھ کر آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
برازیل کی ’فسکا‘
1993ء میں برازیل کے اس وقت کے صدر اتامر فرانکو نے بیٹل کی دوبارہ سے پروڈکشن شروع کرنے کا حکم دیا۔ برازیل میں بیٹل کو فسکا کہتے ہیں۔ 1959ء سے 1986ء تک یہاں تقریباً تینتیس لاکھ فسکا تیار کی گئی تھیں جب کہ 1993ء سے 1996ء تک چھیالس ہزار بیٹل کاریں بنائی گئیں۔
تصویر: Volkswagen do Brasil
عوامی سے بین الاقوامی کار
دنیا کے دیگر ممالک جیسے جنوبی افریقہ، بیلجیم، آسٹریلیا اور انڈونیشیا میں بھی بیٹل کاریں تیار کی جاتی رہیں۔ جرمنی کی ایک عوامی کار نے سب کو متاثر کیا۔ دنیا بھر میں بائیس ملین بیٹل تیار اور فروخت ہوئیں۔ ابھی بھی بہت سے ممالک میں بیٹل سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں، جیسے اس تصویر میں مصر میں۔
تصویر: Masr Betelz Club
نئی بیٹل
1998ء میں فوکس ویگن نے نیو بیٹل متعارف کرائی۔ اس کار کا ڈیزائن بھی پرانی کار کی طرز پر تیار کیا گیا تھا، جیسا فرڈینانڈ پورشے نے تخلیق کیا تھا۔
تصویر: Milad Allahyari
10 تصاویر1 | 10
اس کا سبب امریکی حکام کی طرف سے فوکس ویگن کے سابق سربراہ مارٹن ونٹرکورن کے خلاف دائر کیے جانے والے مجرمانہ نوعیت کے وہ الزامات تھے، جن کے تحت ونٹرکورن کو بخوبی علم تھا کہ اس گروپ کی گاڑیوں میں غیر قانونی سافٹ ویئر استعمال کیا جا رہا تھا۔
اب یہی چھان بین مزید پھیل کر آؤڈی کے سربراہ کے دفتر تک بھی پہنچ گئی ہے۔ جنوبی جرمن شہر میونخ میں ریاستی دفتر استغاثہ نے اسی مہینے آؤڈی کے سربراہ شٹاڈلر کے خلاف بھی اپنی چھان بین شروع کر دی تھی۔
شٹاڈلر کے خلاف دفتر استغاثہ کو شبہ ہے کہ انہیں نہ صرف یہ علم تھا کہ آؤڈی کی گاڑیوں میں بھی زہریلے مادوں کے اخراج کی پیمائش کرنے والا غیر قانونی سافٹ ویئر نصب کیا جا رہا تھا بلکہ انہوں نے ایسے گاڑیوں کی یورپی یونین کی داخلی منڈی میں فروخت کے عمل میں مدد بھی کی تھی۔
تازہ رپورٹوں کے مطابق روپرٹ شٹاڈلر کو فوکس ویگن گروپ اور آؤڈی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے طویل رخصت پر بھیج دیا ہے۔
م م / ع س / روئٹرز
یورپ میں گاڑیوں کی بہار
یورپ میں اگر گاڑیوں کے موسم بہار کے آغاز کی بات کی جائے تو اس کی شروعات معمول کے مطابق سوئس شہر جنیوا میں موٹر گاڑیوں کے میلے سے ہوتی ہے۔ اس مرتبہ اس میلے میں تیس مختلف ممالک کے دو سو سے زائد نمائش کنندگان موجود ہیں۔
تصویر: Daimler AG
اوپل کی انسِگنیا
انٹرنیشنل جنیوا موٹر شو میں اوپل اپنے انسِگنیا ماڈل کا گرینڈ اسپورٹس ورژن پیش کر رہی ہے۔ اس کی قیمت چھبیس ہزار یورو ہے جبکہ گاڑی کا اندرونی حصہ انتہائی متاثر کن ہے۔
تصویر: GM Corp
پیژو ایک منفرد انداز
فرانسیسی کار ساز ادارہ پیژو ( Peugeot) جنیوا میں ’انسٹنکٹ‘ نامی اپنی کونسیپٹ کار کے ساتھ شریک ہو رہا ہے۔ یہ مکمل طور پر خود کار ہے اور اس میں انٹرنیٹ کی سہولت جنوبی کوریائی کمپنی سام سنگ نے مہیا کی ہے۔
تصویر: PSA
سِٹروئن کراس
فرانسیسی کار ساز اداروں کے گروپ ’ پی ایس اے‘ میں پیژو کے ساتھ ساتھ سِٹروئن بھی شامل ہے۔ جنیوا میں سِٹروئن اپنی ایک ایسی جیپ پیش کر رہی ہے، جو شہر کے اندر چلانے کے لیے بنائی گئی ہے۔ جیپ کا نام ہے’ سی ایئر کراس کونسیپٹ‘۔
تصویر: PSA
فوکس ویگن کا تصور
جرمن کار ساز ادارہ فوکس ویگن جنیوا میں’آرٹیؤن‘ نامی ایک گاڑی پیش کر رہا ہے۔ اس گاڑی کا ڈیزائن انتہائی منفرد قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Volkswagen
پورشے اور الیکٹرک؟
کیا یہ ممکن ہے کہ پورشے کی کسی گاڑی کے انجن کی طاقت 462 ہارس پاور ہو اور وہ ایک سو کلومیٹر فاصلہ صرف ڈھائی لیٹر میں طے کرے؟ جی ہاں پورشے نے اپنے ماڈل پانامیرا ای ہائبرڈ متعارف کرا کے یہ ممکن کر دکھایا ہے۔ جنیوا میں پہلی مرتبہ پانامیرا کی اسٹیشن ویگن پیش کی جا رہی ہے۔
تصویر: Porsche AG
فیملی کار
مرسیڈیز نے گزشتہ ایک سال کے دوران اپنے ای کلاس ماڈل کو مکمل طور پر تبدیل کرتے ہوئے ایک نئے انداز سے متعارف کرایا ہے۔ ابھی تک صرف ای کلاس کے کنورٹیبل ماڈل کی کمی تھی اور یہ کمی جنیوا میں پوری کی جا رہی ہے۔
تصویر: Daimler AG
ریگستانوں کی شہنشاہ
یقین نہیں آتا کہ کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ مرسیڈیز ’جی‘ ماڈل جیپ بہت عرصے سے بنا رہا ہے اور یہ انتہائی مقبول بھی ہے۔ تاہم اب یہ گاڑی مائی باخ جی 650 کے طور پر بھی متعارف کرا دی گئی ہے۔ اگر آپ اس گاڑی میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اسے خریدنے کے لیے آپ کے پاس پانچ لاکھ یورو ہونے چاہیے۔ مرسیڈیز اس ماڈل کی صرف 99 گاڑیاں تیار کرے گا۔
تصویر: Daimler AG
بی ایم ڈبلیو کی فائیو سیریز
جرمن کار ساز ادارے بی ایم ڈبلیو جنیوا میں اپنی فائیو سیریز کے ساتھ موجود ہو گا۔
تصویر: BMW AG
الفا رومیو کی بھی جیپ
یورپ میں جیپ کی مقبولیت میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے ہر کار ساز ادارہ جیپ کا ماڈل متعارف کرانے کی کوشش میں ہے۔ اب اطالوی کار ساز ادارے الفا رومیو کی جیپ بھی جنیوا کار شو میں دیکھنے کو ملے گی۔
تصویر: FCA
طاقت ور اور تیز ترین
جنیوا کار شو میں آپ کو فیراری کی اب تک کی سب سے طاقت ور انجن کی حامل اور سبک رفتار گاڑی دیکھنے کو ملے گی۔ اس گاڑی کا انجن آٹھ سو ہارس پاور کا ہے اور یہ گاڑی صرف 2.9 سیکنڈز میں سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کو پہنچ جاتی ہے۔
تصویر: Ferrari
فیراری کے مقابلے میں لیمبورگینی
لیمبورگینی ’ایونٹاڈور ایس‘ کے انجن کی طاقت 740 ہارس پاور ہے اور یہ گاڑی ساڑھے تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک سڑکوں پر دوڑ سکتی ہے۔ اسپورٹس کار کے شوقین اس گاڑی کو جنیوا کار شو میں دیکھ سکتے ہیں۔