ڈیل یا نو ڈیل: ’برطانیہ کو بریگزٹ بل تو ادا کرنا ہی پڑے گا‘
26 اگست 2019
یورپی یونین نے کہا ہے کہ اگر برطانیہ اس سال اکتیس اکتوبر کو کسی ڈیل کے بغیر بھی یونین سے نکلا، تو بھی اسے بریگزٹ بل تو ادا کرنا ہی پڑے گا۔ لندن کے ذمے اس بل کی مالیت انتالیس بلین پاؤنڈ یا تینتالیس بلین یورو بنتی ہے۔
اشتہار
برسلز میں یورپی یونین کے صدر دفاتر سے پیر چھبیس اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یونین کے اعلیٰ ترین انتظامی بازو یعنی یورپی کمیشن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ برطانیہ کو اب تک کے پروگرام کے مطابق 31 اکتوبر تک اس بلاک کو خیرباد کہہ دینا ہے۔
موجودہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ لندن حکومت کی رائے میں اگر تو بریگزٹ پر عمل درآمد تک کوئی باقاعدہ معاہدہ طے پا گیا، تو برطانیہ یورپی یونین کو وہ رقوم ادا کرنے کا بھی پابند ہو گا، جنہیں عرف عام میں 'بریگزٹ بل‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر لندن اور برسلز کے مابین کوئی معاہدہ طے نہ پایا، تو اس صورت میں، جسے 'نو ڈیل بریگزٹ‘ کہا جاتا ہے، لندن حکومت یونین کو کسی بھی طرح کی مالی ادائیگیوں کی پابند نہ ہو گی۔
اس کے جواب میں اب یورپی کمیشن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ برطانیہ آئندہ اگر یورپی یونین کا رکن نہیں بھی رہتا، تو بھی اسے اپنے ذمے وہ ادائیگیاں تو ہر حال میں کرنا ہی ہوں گی، جو یورپی یونین کا قانونی حق بھی ہیں۔
اس بارے میں یورپی کمیشن کی پختہ رائے یہ ہے، ''بریگزٹ کسی ڈیل کے ساتھ ہو یا کسی ڈیل کے بغیر ہی، برطانیہ اس بل کی ادائیگی کے بغیر اپنی مالیاتی ذمے داریوں سے عہدہ برا ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
اس بارے میں یورپی کمیشن کی ترجمان نے برسلز میں صحافیوں کو بتایا، ''جیسا کہ ہم پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں، وہ مالیاتی وعدے جو اس بلاک کی رکن ریاستوں نے کیے تھے، ان کا پورا کرنا تمام 28 رکن ممالک کے لیے لازمی ہے۔ اور اس حقیقت پر اس امکان سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بریگزٹ کسی ڈیل کے ساتھ ہو یا کسی ڈیل کے بغیر۔‘‘
یورپی یونین کے قواعد و ضوابط کے مطابق برطانیہ کی اس بلاک میں رکنیت ختم ہونے پر لندن حکومت کو برسلز کو جو مالی ادائیگیاں کرنا ہیں، ان کی مالیت 39 بلین پاؤنڈ (43 بلین یورو یا 48 بلین ڈالر کے برابر) بنتی ہے۔ اس بات پر موجودہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی قدامت پسند پیش رو ٹریزا مے نے اس معاہدے میں باقاعدہ اتفاق بھی کر لیا تھا، جسے مے برطانوی پارلیمان سے کئی بار کی کوشش کے باوجود منظور نہ کروا سکی تھیں اور جس میں اب بورس جانسن کئی تبدیلیوں کے خواہش مند ہیں۔
یورپی یونین فریقین کے مابین اس طے شدہ بریگزٹ ڈیل پر نئے سرے سے کوئی بات چیت کرنا ہی نہیں چاہتی۔
م م / ا ا / اے ایف پی
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔