ڈیمنشیا کی روک تھام ممکن لیکن مکمل علاج کی راہ طویل، تحقیق
18 اگست 2024طبی سائنسی جریدے لانسیٹ میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق چند احتیاطی تدابیر کے ذریعے ڈیمنشیا کی روک تھام ممکن ہے۔ یہ مطالعہ سن 2020 میں شائع ہونے والی اُس تحقیق کی پیروی کرتا ہے، جس کے مطابق تعلیم کی کمی، قوت سماعت میں کمی، ہائی بلڈ پریشر، سگریٹ نوشی، موٹاپا، ڈپریشن، جسمانی سرگرمیوں سے دوری، ذیابیطس، شراب نوشی، ذہنی چوٹ، فضائی آلودگی اور سماجی تنہائی جیسے عوامل اس مرض کا سبب بن سکتے ہیں۔
حالیہ رپورٹ میں کمزور بصارت اور کولیسٹرول کو بھی ان عوامل میں شامل کیا گیا ہے۔ محققین کے مطابق مجموعی طور پر ان 14 عوامل کے خاتمے سے ممکنہ طور پر ڈیمنشیا کے 50 فیصد کیسز کی روک تھام ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
کئی عشروں کی تحقیق اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود آج تک ڈیمنشیا کے مکمل علاج کے لیے کوئی مؤثر دوا تیار نہیں کی جا سکی۔
سن دو ہزار تئیس کے آغاز سے امریکہ میں ڈیمنشیا کی ایک قسم الزائمر میں مبتلا مریضوں کے لیے دو نئی ادویات ''لیکانیماب اور ڈونانیماب‘‘ کی منظوری دی گئی ہے لیکن ان ادویات کے فوائد نسبتاً معمولی ہیں، جبکہ ان کے ضمنی اثرات شدید مضر ہوتے ہیں اور یہ بہت مہنگی بھی ہیں۔
اس کے برعکس یورپی یونین میں ادویات کے معیارات کو یقینی بنانے والے ادارے نے گزشتہ ہفتے لیکانیماب کی منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا جبکہ ڈونانیماب کی منظوری زیر غور ہے۔
کچھ محققین کے مطابق نئی ادویات سے علاج میں معمولی کامیابی مستقبل میں مزید مؤثر علاج کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ دیگر کا ماننا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے ذریعے ہی ڈیمنشیا کی روک تھام پر توجہ مرکوز رکھی جانا چاہیے۔
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے نیورولوجسٹ مسعود حسین کا کہنا ہے کہ الزائمر کی وجہ بننے والے خطرناک عوامل پر توجہ مرکوز رکھنا لاگت کے لحاظ سے زیادہ مؤثر ہو گا، بجائے اس کے کہ نئی ادویات تیار کی جائیں، جن کے نتائج تاحال مایوس کن رہے ہیں۔
ماہرین نے اس نئی تحقیق کا خیر مقدم کیا ہے کیوں کہ ماہرین کے درمیان اس مرض کی روک تھام کی اہمیت کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں۔ تاہم کچھ ماہرین کے مطابق اس خیال کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے ذریعے ڈیمنشیا کے نصف کیسز کی روک تھام ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
تحقیق کے مطابق کچھ عوامل بنیادی طور پر ایک دوسرے سے منسلک ہو سکتے ہیں، جیسے کہ ڈپریشن اور سماجی تنہائی، سگریٹ نوشی اور ہائی بلڈ پریشر وغیرہ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بعض سماجی مسائل کا شمار بھی ان عوامل میں ہوتا ہے، جنہیں مکمل طور پر حل کرنا تقریباﹰ ناممکن ہے۔
اس تحقیق میں ڈیمنشیا کے خطرے کو کم کرنے کے لیے مختلف تجاویز بھی دی گئی ہیں۔ ان میں سائیکل چلاتے وقت ہیلمٹ پہننے جیسے ذاتی اقدام سے لے کر تعلیم تک رسائی بہتر بنانے جیسے حکومتی اقدامات شامل ہیں۔
لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے نیورولوجسٹ چارلس مارشل نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''یہ واضح نہیں کہ آیا ہم ان عوامل میں سے کسی کو بھی مکمل طور پر ختم کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس سگریٹ نوشی اور ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے کے لیے پہلے سے ہی صحت عامہ کے پروگرام موجود ہیں تو اب مزید کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟‘‘
یونیورسٹی آف ایڈنبرا کی نیورو سائنس دان تارا اسپائرز جونز کہتی ہیں کہ ڈیمنشیا میں مبتلا لوگوں کو اس بیماری کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔ انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا، ''ڈیمنشیا کے بہت سے کیسز میں جینیاتی اور دیگر ایسے عوامل کے سبب روک تھام ممکن نہیں بنائی جا سکتی۔ یہ سب کچھ کسی شخص کے اختیار میں نہیں، جیسا کہ بچپن میں تعلیم کے محدود مواقع وغیرہ۔‘‘
ح ف / ا ا (اے ایف پی)