ترکی میں مقید ترک نژاد جرمن صحافی ڈینیز یوچیل کو پابند سلاسل ہوئے آج ایک برس بیت گیا ہے۔ اس موقع پر وفاقی جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے ایک مرتبہ پھر ترک حکام سے ان کی رہائی کا مطابہ کیا ہے۔
اشتہار
وفاقی جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے کہا ہے کہ ڈینیز یُوچیل کا ترکی میں ابھی تک حراست میں رکھا جانا پہلے کی طرح اب بھی ترک جرمن تعلقات میں بہتری کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ برلن حکومت ابھی تک اس کوشش میں ہے کہ ترکی میں یُوچیل کے خلاف مقدمے کی منصفانہ سماعت قانون کے مطابق لیکن جلد از جلد ہونی چاہیے۔
’تنہائی بھی ایک قسم کا تشدد ہی ہے‘ اسیر صحافی ڈینیز یوچیل
اپنی گرفتاری کا ایک سال پورا ہونے پر یوچیل نے اپنی ایک تحریر میں لکھا، ’’میں اس سے قبل ان لوگوں سے بات چیت کر چکا ہوں، جنہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور یہودیوں کے قتل عام یعنی ہولوکاسٹ کے متاثرین سے بھی۔ اب مجھے پتا چلا ہے کہ جب کوئی خود ریاستی جبر و ستم کا نشانہ بنتا ہے تو اس طرح کے واقعات مختلف انداز میں سمجھ آتے ہیں۔‘‘
یوچیل 1973ء میں جرمن شہر فرینکفرٹ کے قریب پیدا ہوئے تھے۔ ان کے پاس ترکی اور جرمنی دونوں ممالک کی شہریت ہے۔ وہ ترکی میں تعینات ایک جرمن روزنامے ’دی ویلٹ‘ کے لیےکام کرتے ہیں۔ انہیں ترک حکام نے 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت اور بعد میں کردوں کے خلاف سکیورٹی آپریشن سے متعلق ان کے ایک مضمون کے باعث مبینہ اشتعال انگیزی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ان پر ابھی تک باقاعدہ فرد جرم عائد نہیں کی گئی ہے۔
ترکی میں آزاد صحافیوں کی کے پی 24 نامی ایک تنظیم کی مطابق تقریباً ڈیڑھ سو صحافی آج کل ترک جیلوں میں قید ہیں۔
ترک فوج کے ایک گروپ کی طرف سے ملک کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں جبکہ صدر ایردوآن نے نامعلوم مقام سے سی این این ترک نیوز ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغاوت کی کوشش ناکام بنا دی جائے گی۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
عوام سڑکوں پر
ترکی میں فوج کے ایک گروہ کی طرف سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران ہی عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Y. Okur
لوگ ٹینکوں پر چڑھ دوڑے
خبر رساں اداروں کی طرف سے جاری کردہ تصاویر کے مطابق انقرہ میں فوجی بغاوت کے مخالفین عوام نے ٹینکوں پر حملہ کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
عوام میں غصہ
میڈیا رپورٹوں کے مطابق ہفتے کی علی الصبح ہی انقرہ میں فوجی بغاوت کے خلاف لوگوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر آ گئی۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
کچھ لوگ خوش بھی
خبر رساں اداروں کے مطابق جہاں لوگ اس فوجی بغاوت کی کوشش کے خلاف ہیں، وہیں کچھ لوگ اس کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
ایردوآن کے حامی مظاہرین
ترک صدر ایردوآن نے موبائل فون سے فیس ٹائم کے ذریعے سی این این ترک نیوز ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے عوام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بغاوت کی یہ کوشش مختصر وقت میں ہی ناکام بنا دی جائے گی۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
کرفیو کا نافذ
ترکی کے سرکاری براڈ کاسٹر کی طرف سے نشر کیے گئے ایک بیان کے مطابق فوج نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے۔ بغاوت کرنے والے فوجی گروہ نے جمعے کی رات ہی اس نشریاتی ادارے کو اپنے قابو میں کر لیا تھا۔
تصویر: picture alliance/ZUMA Press/Saltanat
ٹینک گشت کرتے ہوئے
انقرہ کی سڑکوں پر رات بھر ٹینک گشت کرتے رہے۔
تصویر: Getty Images/D. Karadeniz
جنگی جہاز اڑتے ہوئے
استنبول میں جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات جیٹ طیارے نیچی پرواز کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/AA
ہیلی کاپٹرز سے نگرانی
بغاوت کرنے والے فوجی گروہ نے کہا ہے کہ ملک میں امن کی خاطر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ رات کے وقت ایک ہیلی کاپٹر پرواز کرتے ہوئے۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
عالمی برداری کی مذمت
ترکی کی موجودہ صورتحال پر عالمی برداری نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک کا کہنا کہ ترکی کی جمہوری حکومت کا ساتھ دیا جائے گا۔
تصویر: Getty Images/D. Karadeniz
ترک صدر محفوظ ہیں
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ عوام سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ’فوج کے اندر ایک چھوٹے سے ٹولے‘ کی طرف سے کی گئی یہ بغاوت ناکام بنا دی جائے گی۔