1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈیٹنگ ایپس: کیا آپ کی ڈیجیٹل سیکیورٹی خطرے میں ہے؟

14 جولائی 2022

کیا پاکستان میں ڈیٹنگ ایپس کا آزادانہ استعمال خواتین کی ڈیجیٹل سیکیورٹی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے؟

تصویر: privat

کیا ڈیٹنگ ایپس پرعورتوں کا شناخت ظاہر کرنا اس قدر خطرناک ہے کہ ان کی ذاتی زندگی میں شدید پریشانی پیدا ہو سکتی ہے؟ کیا ان کی ڈیجیٹل سیکیورٹی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے؟ کیا پاکستانی مرد اس حد تک ناقابل اعتبار ہیں کہ ڈیٹنگ ایپس پرعورتیں اپنی شناخت ظاہر نہیں کر سکتیں؟ یہ اور ایسے کئی سوال 40 سالہ عمیمہ اور پاکستان میں بسنے والی خواتین کے ذہنوں میں گردش کرتے ہیں۔

عمیمہ جنہوں نے شادی کی نیت سے رشتے کے روایتی طریقوں سے تنگ آکر ایک دوست سے مشورہ کیا اور اسی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایک ''حلال ڈیٹنگ ایپ‘‘ پر پروفائل بنا ڈالی۔ 'مزمیچ‘ مسلمانوں کے لیے بنائی گئی ایک موبائل ڈیٹنگ ایپ ہے جس پر کوئی بھی اپنے لیے جیون ساتھی کا انتخاب کرنے کے لیے مختلف لوگوں سے بات چیت کر سکتا ہے۔

عمیمہ نے مزمیچ کو دوسری ڈیٹنگ ایپس کی طرح ہی پایا۔ چونکہ وہ ایک طویل عرصے سے بوریت دور کرنے کے لیے ان ایپس کا استعمال کر رہی تھیں۔ تاہم 'ڈیٹنگ‘ سے متعلق پاکستانی معاشرے کی قدامت پسندانہ سوچ کے باعث انہوں نے ٹنڈر، سکاؤٹ اور بمبل جیسی ایپس پر اپنی شناخت کبھی ظاہر نہیں کی۔

عمیمہ اس بات سے بھی خوف زدہ تھیں کہ شناخت ظاہر کرنے پر ان کے بارے میں منفی رائے قائم کی جائے گی۔ پاکستان میں عموماﹰ مرد کھلم کھلا ان ایپس کا استعمال کرتے ہیں لیکن اگر کوئی خاتون ان ایپس پر نظر آجائے تو ان کی کردار کشی کرنے میں کوئی پیچھے نہیں رہتا۔

اسی بات کے پیش نظرعمیمہ نے مزمیچ پر بھی اپنی شناخت ظاہر کرنے سے گریز کیا۔ ایک ہفتے میں مختلف مردوں سے بات کر کے عمیمہ کو اندازہ ہوا کہ مزمیچ پر مرد حضرات شادی کے معاملے میں کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں۔ اس ایپ پر اکثر مردوں کی رائے یہ تھی کہ پہلے وہ خاتون کو گرل فرینڈ بنا کر ہر طرح سے ’پرکھیں‘ گے اور اس کے بعد ہی شادی کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں گے۔

اسی کشمکش میں ایک ہم عمر مرد سے عمیمہ کی بات ہوئی اور وہ انہیں مناسب بندہ لگا۔ بات کچھ آگے بڑھی تو شدید اسرار پر عمیمہ نے اپنی تصویر بھیج دی۔ لیکن اس کے بعد ان حضرت نے عمیمہ کو مس میچ کر دیا۔

چند دن بعد عمیمہ کے ساتھ دوبارہ ایسا ہی ایک اور واقع پیش آیا لیکن اس بار بات صرف 'مس میچ‘ کرنے تک ہی نہیں رہی۔ اس بار انہیں تصویر شئیر کرنا بہت مہنگا پڑ گیا۔

اگلے ہی دن عمیمہ کے فیس بک اکاؤنٹ پر ایڈ ریکویسٹس کا تانتا بندھ گیا۔ روزانہ کی بنیاد پر تقریباﹰ ایک سو سے زائد مرد انہیں فیس بک پرایڈ کرنے لگے۔ ساتھ ہی ان کا ان باکس مختلف قسم کے پیغامات سے بھر گیا۔

ہر سیکنڈ پر ایڈ ریکویسٹ کی بیپ اور اتنے سارے میسجز نے عمیمہ کی زندگی اجیرن کر دی۔ پانچ دن شدید اذیت میں گزارنے کے بعد عمیمہ نے پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) سے رابطہ کیا اور انہیں صورتحال سے آگاہ کیا۔ 

اس ادارے کے مطابق عمیمہ کی فیس بک پروفائل کا لنک کسی ایسی جگہ پر ڈال دیا گیا ہے جہاں بے شمار لوگوں کو اس تک رسائی حاصل ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ کچھ عرصے کے لیے انہیں فیس بک پر پبلک فرینڈ ریکویسٹ کے آپشن کو بند کر دینا چاہیے۔ عمیمہ کو اس مشورے پر عمل کرنا پڑا تاکہ وہ سکون کا سانس لے سکیں۔

اس واقعے کے دو ماہ گزر جانے کے بعد بھی کچھ حضرات اب تک عمیمہ کو میسجز بھیجتے ہیں۔ اس ایک واقعے نے کئی طرح کے سوالات کو جنم دیا ہے۔ اگر ڈیٹنگ ایپ پر شناخت ظاہر کرنا ایک عورت کی ذاتی زندگی کو اتنا متاثر کر سکتا ہے تو عام زندگی میں ایسے مردوں سے شادی کے ارادے سے ملنا کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے؟

کیا یہ زیادہ بہتر ہے کہ خواتین ڈیٹنگ ایپس یا سماجی رابطوں کی ایپس پر صرف جعلی شناخت ظاہر کریں؟ کیا پھولوں کی تصاویر یا دانشوروں کے اقوال لگانا زیادہ بہتر رہے گا؟ یا زندگی کا ساتھی تلاش کرنے کے لیے خواتین کے پاس ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ وہ چائے کی ٹرے سجا کر لوگوں کے سامنے پیش ہوتی رہیں؟

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

 

 

فاطمہ شیخ کراچی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ زیادہ تر سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں