ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے بارے میں کیسے پتا چل سکتا ہے؟
10 جولائی 2022گزشتہ دنوں کے دوران پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر سابق خاتون اول بشری بی بی کی ایک لیک آڈیو چھائی رہی۔ اس سے پہلے بھی متعدد سیاستدانوں اور اہم عہدوں پر رہنے والی شخصیات کی آڈیوز اور ویڈیوز سامنے آتی رہی ہیں، جن کے بارے میں دعوی کیا گیا کہ انہیں ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے تیار کیا گیا ہے۔
ان لیک آڈیو اور ویڈیوز میں کیا کچھ ہوتا ہے اور انہیں کن سیاسی مقاصد کے لیے لیک کیا جاتا ہے اس سے قطۂ نظر ڈوئچے ویلے نے آئی ٹی اور کمپیوٹر سائنسدانوں سے جاننے کی کوشش کی کہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کیا ہے؟ اس کی مدد سے فیک آڈیو یا ویڈیو کس طرح تیار کی جاتی ہیں اور انہیں جانچا کس طرح جاتا ہے؟
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کیا ہے؟
نامور پاکستانی کمپیوٹر سائنسدان اور محقق ڈاکٹر مبشر رحمانی نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈیپ فیک کا لفظ مصنوعی ذہانت کے ڈیپ لرننگ پروگرام سے مستعار ہے۔ یعنی ایسی تکنیک، جو پوری طرح نقلی ہو لیکن اتنی ڈیپ (گہری) ہو کہ نقل کی پہچان کرنا مشکل ہو جائے، ''اس ٹیکنالوجی کی مدد سے کسی تصویر سے لیا ہوا چہرہ کسی ویڈیو میں موجود شخص کے جسم پہ لگایا جا سکتا ہے اور پھر اس کے چہرے کے تاثرات کو مشین لرننگ کے ذریعے کنٹرول کر کے تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔‘‘
ڈیپ فیک تکنیک سے مواد کس طرح تیار کیا جاتا ہے؟
ڈاکٹر مبشر رحمانی کے مطابق ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے آڈیو یا ویڈیوز تیار کرنے کے لیے، جو انتہائی جدید ڈیپ لرننگ الگورتھم استعمال کیے جاتے ہیں انہیں"جنریٹو ایڈورسئیل نیٹ ورک" یا "جی اے این " کہا جاتا ہے۔ یہ امر یقینا عام افراد کے لیے باعث حیرت ہو گا کہ ڈیپ فیک کی ڈیٹیکشن کے لیے بھی یہی الگورتھم استعمال کیے جاتے ہیں۔
ڈیک فیک ویڈیو کی تیاری کے لیے زیر ِاستعمال سوفٹ ویئر کو ٹارگٹ سے متعلق متعدد معلومات فراہم کرنی ہوتی ہیں مثلا اس کے بولنے کا انداز، ہاتھوں اور چہرے کی حرکات، مثبت یا منفی رد عمل دینے کا انداز وغیرہ۔ اس کے لیے سوفٹ ویئر میں دو ویڈیوز داخل کی جاتی ہیں۔ ایک ٹارگٹ کی اور دوسری اس شخص کی ویڈیو جس سے الفاظ یا تاثرات ادا کروانے ہوں۔ سوفٹ ویئر ڈیپ لرننگ کرتے ہوئے چہرے کے خدوخال، دوران ِ گفتگو چہرے پر پڑنے والی لکیروں، شکنوں اور تاثرات وغیرہ سے متعلق اہم ڈیٹا اکھٹا کرتا ہے۔
اس کے بعد اگلے مرحلے میں حاصل شدہ ڈیٹا کو دوسرے شخص کے تجزیاتی ماڈل میں ڈی کوڈ کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح فیک آڈیوز تیار کرنے کے لیے متعلقہ سوفٹ ویئرز کی مدد سے کسی دوسرے کی آواز کے صوتی دھارے میں ترامیم کرکے ٹارگٹ کی آواز کی مشابہہ آواز حاصل کی جاتی ہے۔
کسی آڈیو یا ویڈیو کے ڈیپ فیک ہونے سے متعلق کیسے پتا لگایا جاتا ہے؟
ڈاکٹر مبشرر حمانی نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سوال کے دو حصے ہیں۔ پہلا سوال یہ ماہرین ڈیپ فیک کو کس طرح ڈیٹیکٹ کرتے ہیں؟ اور دوسرا یہ عام افراد کسی کونٹینٹ کے بارے میں کیسے جان سکتے ہیں کہ یہ انجینئرڈ ہے؟
ڈاکٹر رحمانی کے مطابق آئی ٹی، کمپیوٹر یا فارنزک ماہرین ڈیپ فیک مواد کو جانچنے کے لیے جی اے این الگورتھم ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ عمل دو مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے میں یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ کسی آڈیو یا ویڈیو میں انجینئرنگ کی گئی ہے یا نہیں۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں گہرے تجزیے سے معلوم کیا جاتا ہے کہ ترامیم مواد میں ٹھیک کن مقامات پر اور کس طرح کی گئی ہیں۔
عام افراد ڈیپ فیک مواد سے متعلق کس طرح جان سکتے ہیں؟
ڈاکٹر مبشر رحمانی کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کی ذریعے ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے تیار کردہ مواد بہت تیزی سے پھیل رہا ہے، جو معاشرتی برائیوں کے علاوہ سنگین جرائم کا سبب بھی بن رہا ہے اس لیے عام افراد کو اس سے متعلق معلومات لازمی رکھنی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے سے آئے روز نئے سوفٹ ویئرز، ایپلی کیشنز وغیرہ سامنے آتی رہتی ہیں، جیسے ڈیپ ویئر، سیریلی وغیرہ کا استعمال ان دنوں بڑھ گیا ہے۔
اسد مکی ایس اے ایس (ساس) انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنس سے وابستہ ایک ماہر ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، ''عام افراد کسی ویڈیو کے اصلی یا جعلی ہونے کے بارے میں جاننے کے لیے دوران گفتگو متعقلہ شخص کے چہرے کے تاثرات کے ساتھ اس کی پلکیں جھپکنے کی رفتار نوٹ کریں؟ اسی طرح گالوں اور ماتھے پر پڑنے والی شکنوں سے بھی ڈیپ فیک ہونے سے متعلق تھوڑا اندازہ ہو سکتا ہے۔‘‘
اسد مکی کے مطابق ڈیپ فیک دنیا بھر میں ابھرتا ہوا ایک بڑا معاشرتی مسئلہ ہے، جس کا واحد حل یہی ہے کہ عام افراد مصنوعی ذہانت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائبر سکیورٹی میں ہونے والی جدید پیش رفت سے خود کو اپ ڈیٹ رکھیں۔
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے خواتین کتنا متاثر ہو رہی ہیں؟
ڈاکٹر بشری انجم پاکستانی نژاد ڈیٹا سائنٹسٹ ہیں، جو امریکہ میں اہم اداروں پر خدمات سر انجام دے چکی ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈیٹا سائنس کو فی الوقت دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور یہ چیلنجز تصدیق شدہ ڈیٹا کی دستیابی اور اس کا استعمال ہیں ۔
انٹر نیٹ یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر لوگ جو کچھ شیئر کرتے ہیں، وہ ان کی ذاتی زندگی میں دلچسپیوں، تجربوں اور اقدار کا عکاس ہوتا ہے۔ خواتین کو اس حوالے سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے کہ ان کی شیئرنگ کو ڈیپ فیک سے انجینئرنگ کے ذریعے انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر بشری انجم کے مطابق اس کا واحد حل یہی ہے کہ اپنے ڈیٹا کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جائے اور سائبر سکیورٹی سے متعلقہ ادارے آن لائن ہراسانی پر فوری کارروائی کریں۔
پاکستان میں ڈیپ فیک کو جانچنے کے حوالے سے کتنا تحقیقی کام ہوا ہے؟
ڈاکٹر مبشر رحمانی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستان میں کامسیٹس یونیورسٹی اور یو ای ٹی ٹیکسلا میں ڈیپ فیک کو جانچنے سے متعلق بین الاقوامی سطح کی تحقیق ہوئی ہے اور وہ اس پر فیس بک سے ایک ایوارڈ بھی جیت چکے ہیں۔ اس کے علاوہ لمز اور نسٹ میں بھی اس پر کافی کام ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر رحمانی کے مطابق پاکستان میں سیاسی مقاصد کے لیے ڈیپ فیک آڈیو یا ویڈیو کا استعمال بہت زیادہ بڑھتا جا رہا ہے لہذا دیگر تعلیمی اور تحقیقی اداروں کو بھی اس حوالے سے فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول عام افراد تک اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے آگاہی اور معلومات پہنچانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔