ڈیڑھ ہزار پاکستانی مہاجرین رواں برس اٹلی پہنچ چکے ہیں
27 نومبر 2018
اس سال کے آغاز سے اب تک تیئس ہزار مہاجرین اور تارکین وطن اطالوی بندرگاہوں پر پہنچے۔ یہ اعداد وشمار اٹلی کی وزارت داخلہ نے آج پیر 27 نومبر کو جاری کیے ہیں۔
تصویر: Imago
اشتہار
اطالوی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مہاجرین کی اٹلی آمد میں گزشتہ برس اسی دورانیے کی نسبت اسّی فیصد جبکہ سن 2016 کے مقابلے میں ستاسی فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
اٹلی کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ ان مہاجرین میں سے پانچ ہزار کا تعلق تیونس سے جبکہ تین ہزار تین سو پچاس کا تعلق اریٹیریا سے تھا۔ اسی طرح رواں برس اب تک اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن میں ایک ہزار چھ سو ستر عراقی، ایک ہزار چھ سو بیس سوڈانی، ایک ہزار پانچ سو دس پاکستانی، ایک ہزار دو سو پچاس نائجیرین، ایک ہزار ایک سو اسّی الجیرین، اور ایک ہزار پچاس آئیوری کوسٹ کے باشندے شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ROPI
اٹلی میں رجسٹرڈ ہونے والے مہاجرین میں تین ہزار چار سو اٹھارہ بچے بھی شامل ہیں جو کسی سرپرست کے بغیر اٹلی پہنچے۔ سن 2016ء میں ایسے بچوں کی تعداد پچیس ہزار آٹھ سو چھیالیس تھی۔ یہ تعداد بھی اس رجحان میں ستاسی فیصد کمی کو ظاہر کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کی مہاجرین کے لیے امدادی ایجنسی یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال کے شروع سے اب تک بحیرہ روم کے ذریعے غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد ایک لاکھ پانچ ہزار ایک سو بیس رہی جبکہ زمینی راستوں سے یورپ پہنچنے والے ایسے تارکین وطن کی تعداد چھ ہزار دو سو بیس رجسٹر کی گئی۔
ص ح / ا ب ا / نیوز ایجنسی
بلغراد میں پرانی بیرکیں، جو پاکستانی مہاجرین کا گھر بنیں
برطانوی فوٹو گرافر ایڈورڈ کرا فورڈ نے کئی ماہ تک سربیا کے کیمپوں میں وہاں قیام پذیر تارکین وطن کی روز مرہ زندگی کو عکس بند کیا۔ آئیے ڈالتے ہیں سربیا میں مہاجرین کی حالت زار پر ایک نظر کرا فورڈ کی ان تصاویر کے ذریعے۔
تصویر: Edward Crawford
امید کی کرن
بلغراد میں ان بیرکوں نے گزشتہ ماہ خالی کیے جانے سے قبل قریب بارہ سو مہاجرین کو پناہ دے رکھی تھی۔ کرا فورڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب میں وہاں اس بحران کی تصویری کَور یج کر رہا تھا، میں نے سینکڑوں پناہ گزینوں سے بات کی۔ تمام پناہ گزینوں کا ایک ہی مقصد تھا یورپ میں ایک بہتر زندگی کی تلاش۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
افغان اور پاکستانی مہاجرین کا گھر
یہ بیرکیں ایسے افغان اور پاکستانی مہاجرین کا گھر رہی ہیں جنہوں نے اپنے ممالک میں غربت اور دہشت گردی سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ کرافورڈ نے واضح کیا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورت حال اُس وقت زیادہ خراب ہوئی جب مغربی افواج واپس چلی گئیں اور طالبان نے ملک میں اُن کے حامیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
تصویر: Edward Crawford
ہمدردی کی تلاش
رواں برس کے آغاز میں یورپ میں داخل ہونے والے مہاجرین کو جس مشکل کا سب سے پہلے سامنا کرنا پڑا وہ شدید سردیاں اور پھر موسم بہار کی سرد ہوائیں تھیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی جانب سے ملے ان سرمئی کمبلوں نے سردی سے بچاؤ میں ان پناہ گزینوں کی مدد کی۔
تصویر: Edward Crawford
سرمئی کمبل
کرافورڈ نے کہا، ’’بیرکوں میں ہر طرف بے شمار کمبل دکھائی دیتے تھے۔ مہاجرین ان کے ڈھیر پر سوتے اور انہی کو گرم کوٹ کی طرح بھی استعمال کرتے تھے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے شخص کے لیے کمبل کا استعمال ناگزیر تھا۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
مہاجرت کے بحران کی علامت
یہ سرمئی کمبل جن کے بغیر مہاجرین کے لیے یورپ کی شدید کو برداشت کرنا شاید ممکن نہ ہو تا، نہ صرف مہاجرین کے بحران کی علامت بنے بلکہ ان تارکین وطن کی روز مرہ زندگی کا اہم جزو بھی بن گئے۔ اس تصویر میں ایک شخص پانی گرم کرتا اور ایک دوسرے مہاجر کے سر پر ڈالتا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسرا ہاتھ میں صابن جبکہ تیسرا بال خشک کرنے کی غرض سے کمبل ہاتھ میں لیے تیار کھڑا ہے۔
تصویر: Edward Crawford
چھوڑا ہوا کمبل
یوں تو مہاجرین سربیا میں جہاں کہیں جائیں، سرمئی کمبل اِن کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تاہم بعض اوقات یہ تارکین وطن اس لیے انہیں کسی جگہ چھوڑ جاتے ہیں تاکہ اُن کی چلنے کی رفتار متاثر نہ ہو۔ کرافورڈ نے بتایا کہ اس کمبل کا مالک اسے ٹرین میں چھلانگ لگاتے وقت ریلوے ٹریک پر چھوڑ گیا تھا۔
تصویر: Edward Crawford
ہیلو امی، میں خیریت سے ہوں
سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یورپ آنے والے چالیس فیصد مہاجرین بچے اور نو عمر افراد ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والا ایک نوجوان مہاجر ہے جو اپنی ماں کو فون پر اپنی خیریت کی اطلاع دے رہا ہے۔
تصویر: Edward Crawford
بہتر صورت حال
کرافورڈ کے بقول اگرچہ بیرکوں میں گنجائش سے زیادہ افراد تھے اور صفائی ستھرائی کی صورت حال بھی اچھی نہیں تھی، اس کے باوجود یہ سربیا کے دوسرے مہاجر کیمپوں کے مقابلے میں بہتر تھا۔
تصویر: Edward Crawford
یورپی یونین پر تنقید
کرافورڈ کے نزدیک اگرچہ صورت حال قدرے مستحکم ہے تاہم وہ بحران کے حوالے سے یورپی یونین کے رویے کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے،’’ سربیا کو کہیں زیادہ فنڈز ملنے چاہئیں تاکہ یہاں مہاجرین کے لیے بہتر ماحول میں کیمپ بنائے جا سکیں۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
رویے کی شکایت کے بجائے تعلیم
کرافورڈ کا کہنا ہے کہ یورپ میں قانونی طور پر مہاجرین کے داخلے کے لیے پناہ کی درخواستوں پر عمل درآمد کی رفتار کو تیز کیا جانا چاہیے۔ لیکن خود مہاجرین صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کریں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے۔ اُن کے رویے کی شکایت کرنے کے بجائے اُنہیں تعلیم دی جائے اور یہ بتایا جائے کہ یہاں کیا قابلِ قبول ہے اور کیا نہیں۔