1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

200412 USA FBI Skandal

Afsar Awan23 اپریل 2012

ڈی این اے کے تجزیے نے جرم و سزا کی دنیا تبدیل کر کے رکھ دی ہے۔ ڈی این اے کے ذریعے شناخت کی بدولت صرف ایک بال، جلد کے چھوٹے سے حصے یا جسمانی لعاب کے نمونے کے ذریعے مجرم کا کھوج لگانا آسان ہو گیا ہے۔

تصویر: AP

اس جدید طریقہ شناخت کو قانونی نظام میں متعارف کرائے جانے کے بعد سے پایہ تکمیل تک پہنچنے والے مقدمات کی تعداد میں واضح اضافہ ہو گیا۔ تاہم ڈی این اے کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچانا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد کسی بھی کارروائی میں شفافیت لانا ہے۔ لیکن اگر ڈی این اے کا تجزیہ کرنے والی لیبارٹری کے نتائج ہی غلط ہوں تو پھر؟ یا پھر تجزیے کے لیے آئے ہوئے بالوں یا دیگر چیزوں کے نمونے ہی بدل جائیں تو؟ یا لیبارٹری سے ہی کوئی غلطی ہو جائے؟ جرائم کا کھوج لگانے کے لیے ڈی این کے تجزیے کے لیے بہترین سمجھی جانے والی یعنی امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی میں قائم لیبارٹری میں بھی ایسا ہو چکا ہے۔
کئی برسوں تک ایف بی آئی کی اس لیبارٹری نے غلط نتائج فراہم کیے اور ا س سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس لیبارٹری نے استغاثہ کی مدد کرنے کے لیے نتائج کو توڑ مڑوڑ کے پیش کیا۔ تاہم یہ غلط نتائج بڑی تعداد میں بے قصور لوگوں کو سزا دلانے کا سبب بنے۔ اس معاملے کا انکشاف ماہر کیمیا اور وکیل فریڈرک وائٹ ہرسٹ نے کیا جو ماضی میں ایف بی آئی کے لیے کام کر چکے ہیں۔ انہوں نے 1990ء کی دہائی میں کہا تھا کہ ایف بی آئی لیبارٹری غیر جانبدارانہ اور عدالتی کارروائی کے لیے درکار معیارات پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’’ اس تصویر کا ایک رخ جسے ہم دیکھنا نہیں چاہتے وہ یہ ہے کہ اس لیبارٹری کی مجرمانہ غفلت کی بدولت ہزاروں لوگوں کو سزائیں ہوئیں۔‘‘

اس جدید طریقہ شناخت کو قانونی نظام میں متعارف کرائے جانے کے بعد سے پایہ تکمیل تک پہنچنے والے مقدمات کی تعداد میں واضح اضافہ ہو گیاتصویر: Max-Planck-Institut

اس وقت کی اٹارنی جنرل جینٹ رینو Janet Reno نے اس معاملے کی چھان بین کے لیے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا جس نے نو برس تک اس معاملے کی تحقیق کی مگر نا تو اس کے نتائج سامنے آئے اور نہ ہی متاثرہ افراد کے بارے میں کچھ معلوم ہوا۔ اس معاملے کا تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ ان غلط نتائج کے بارے میں جیلوں میں قید ایسے لوگوں کے خاندانوں اور ان کے وکلاء کو آگاہ نہیں کیا گیا، جن کے مقدمات کی دوبارہ سماعت کی صورت میں انہیں فائدہ حاصل ہو سکتا تھا۔ مگر دوسری پارٹی کو ان غلط نتائج کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ ایف بی آئی ایسے بے شمار مقدمات کو دوبارہ کھولنے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔

طویل قانونی جدوجہد کے بعد اس کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ اب منظر عام پر آگئی ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ان دستاویزات میں سے بعض کو شائع کیا ہے۔ رپورٹ میں کئی ایسے لوگوں کا حوالہ دیا گیا ہے جو بے گناہ ہونے کے باوجود جیل کاٹ رہے تھے۔

ایسے ہی بے گناہ لوگوں میں سانتیا ٹریبل Santea Tribble بھی ہیں جنہیں ایک ٹین ایجر کے ساتھ زیادتی کے الزام میں 25 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی، جو بعد ازاں غلط ثابت ہوئی۔

ایک سروے رپورٹ کے مطابق کم از کم 250 ایسے مقدمات تھے جن کے لیے ایف بی آئی کی اس لیبارٹری کے نتائج ناقابل اعتبار تھےتصویر: Jesús Abad Colorado

ٹریبل کہتے ہیں: ’’ جب پولیس میری والدہ کے پاس آئی اور کہا کہ وہ ایک جرم کی تفتیش کے سلسلے میں آئی ہے تو میرے ذہن میں دو ایسے پارکنگ ٹکٹس کا خیال آیا جن کی ادائیگی تب تک نہیں ہوئی تھی۔ لیکن پھر میں 25 برس کے لیے سلاخوں کے پیچھے تھا۔‘‘

لیکن بہت سے دیگر لوگوں کے لیے غلط نتائج کا معاملہ آشکار ہونے میں بہت دیر ہوگئی۔ مثال کے طور پر ہیربرٹ بوائل Herbert Boyle کو 1997ء میں زہریلا انجکشن دے کر موت کی نیند سلا دیا گیا۔ معلوم ہوا ہے کہ بالوں کا تجزیہ کرکے بوائل کے خلاف رپورٹ دینے والا اہلکار کئی مرتبہ غلط نتائج تک پہنچا تھا۔ بوائل کے خاندان یا اس کے وکیل کو کبھی اس بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔

ایک سروے رپورٹ کے مطابق کم از کم 250 ایسے مقدمات تھے جن کے لیے ایف بی آئی کی اس لیبارٹری کے نتائج ناقابل اعتبار تھے۔ لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ ان میں کتنے مقدمات میں مجرم ثابت ہونے والے کو دوبارہ سماعت کا موقع مل سکے گا۔

Sabine Fritz/aba

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں