کئی حلقے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے اس بیان کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، جس میں بھارت کو کسی کارروائی کا بھرپور جواب دینے کا کہا گیا ہے۔ کئی کا خیال ہے کہ یہ بیان پاک بھارت تعلقات میں تناؤ کا عکاس ہے۔
اشتہار
واضح رہے جنرل بابر افتخار نے ایک مقامی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت پاکستان کے خلاف ایک فالس فلیگ آپریشن کی سازش کر رہا ہے اور یہ کہ اگر بھارت نے کوئی مہم جوئی کی تو پاکستان بھرپور طاقت کے ساتھ جواب دے گا اور اس کے نتائج کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوں گے۔
دفاعی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بیان معاملے کی سنگینی اور پاک بھارت تعلقات میں تناؤ کا عکاس ہے۔ واضح رہے دونوں ممالک کے تعلقات گزشتہ اگست سے کشیدہ ہیں۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل غلام مصطفے کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے آرٹلری کی موومنٹ غیر معمولی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''کشمیر میں ایک طرف بھارت ایک نئی قیادت پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری طرف چین کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے بھی مودی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ ایسے میں پاکستان کو لگتا ہے کہ نئی دہلی اور انتہا پسند مودی حکومت کوئی بھی مہم جوئی کر سکتی ہے۔ ان کی طرف سے آرٹلری کی موومنٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے طور پر کچھ ریڈ لائنز کا تعین کیا ہے،''اگر وہ سرجیکل اسٹرائیک کرتے ہیں یا آزاد کشمیر( پاکستان کے زیر انتظام کشمیر) میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، تو یہ ریڈ لائنز کو کراس کرنے کے مترادف ہوگا اور ایسا لگتا ہے کہ بھارت ان ریڈ لائنز کو کراس کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر آپ ان کے میڈیا کو دیکھیں اور ان کے لکھاریوں کو پڑھیں تو آپ کو اس بات کے اشارے ملیں گے۔‘‘
پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ اسلام آباد کے لیے کانگریس کی حکومت پھر بھی کچھ بہتر ہے، جس میں کئی عناصر خطے میں امن کے خواہاں ہیں لیکن بی جے پی اور اس کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس خطے میں امن نہیں چاہتے اور ان کا رویہ پاکستان کی طرف انتہائی مخاصمانہ ہے۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
10 تصاویر1 | 10
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ مودی کا بھارت خطے کے تمام ممالک سے لڑنے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ انہوں نے ڈِی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے، بھارت کے نیپال اور چین سے بھی تعلقات کشیدہ چل رہے ہیں۔ بھارت کے اندر بھی بہت سے مسائل ہیں، تو ایسے میں وہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی مہم جوئی کر سکتے ہیں، جس کے بہت خطرناک نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے کشمیریوں کا خیال ہے کہ کشیدگی کسی ایک ملک کی طرف سے نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک اس تناؤ کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کام کرنے والی جمعوں کشمیر پیپلزنیشنل پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار راجہ ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی سے بھی کشمیریوں کو نقصان ہوتا ہے اور جنگ کی صورت میں تو وہ تباہ و برباد ہو جائیں گے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پہلے ہی دونوں اطراف کے کشمیری گولہ باری کا شکار ہیں۔ ہمارے لوگ روزانہ شہید ہورہے ہیں یا زخمی۔ ہمارے گھر تباہ ہورہے ہیں اور جنگ کی صورت میں تو ہمارے لیے مکمل تباہی ہے۔ دونوں ممالک میں کورونا کی وجہ سے معاشی مشکلات بڑھ رہی ہیں اور اس سے اندرونی خلفشار بڑھے گا، جس سے توجہ ہٹانے کے لیے دونوں ممالک خطے کو جنگ کی آگ میں جھونک سکتے ہیں۔‘‘
’’بھارت کشمیر پر اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھا ہے‘‘
اسلام آباد میں ہونے والے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کا مقصد پاکستان کی جانب سے دنیا کو لائن آف کنٹرول پر جنگی کیفیت اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری مظاہرین پر تشدد کے بارے میں آگاہ کرنا بتایا گیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس
وزیر اعظم، سینیئر سیاسی قائدین اور اپوزیشن کے اراکین اجلاس میں شریک ہوئے۔ پاکستان کے سکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اجلاس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی صورت حال پر سیاست دانوں کو بریفنگ دی۔ اجلاس میں شریک سیاسی قائدین نے مسئلہ کشمیرپرحکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے
پارلیمانی اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو بھی شریک ہوئے۔ اجلاس کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو نے کہا،’’ بھارت کشمیر پر اخلاقی جواز کھو چکا ہے، کشمیر کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کا موقف ایک ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،’’ دنیا کو بتانا ہے کہ ہم نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
تصویر: DW/R. Saeed
سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی
مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر کہا،’’ مشکل وقت میں قومی اتحاد وقت کا تقاضہ ہے۔‘‘ وزیر اعظم نواز شریف نے اجلاس میں تمام سیاسی رہنماؤں کی رائے کو سنا۔ نواز شریف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی۔
تصویر: DW/R. Saeed
’کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں‘
اس اجلاس کے اعلامیہ میں لکھا گیا ہے،’’بھارت سرحد پار دہشت گردی کا معاملہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے اٹھا رہا ہے، کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔‘‘ اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے آپس میں بات چیت کرنے کے مواقعوں کو ضائع کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
کشمیر ایک متنازعہ علاقہ
اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت نے خود اقوام متحدہ میں تسلیم کر رکھا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور کلبھوشن یادو جیسے ’را‘ کے ایجنٹ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ اعلامیہ میں بھارت کے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کو بھی مسترد کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
لائن آف کنٹرول پر کشیدگی جاری
پاکستانی فوج کے شعبہء تعلقات عامہ کی جانب سے آج صبح ایک بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے نیزہ پیر سیکٹر پر’’بلا اشتعال فائرنگ‘‘ کی گئی۔ اس سے قبل پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ لائن آف کنٹرول کے قریب افتخار آباد سیکٹر میں بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ ان واقعات کے بعد آئی ایس پی آر کے ایک اور بیان میں کہا گیا کہ کیلار سیکٹر میں بھی بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک
پاکستان اور بھارت کی افواج کے مابین فائرنگ کا سلسلہ اس واقعے کے چند گھنٹے بعد ہی پیش آیا ہے جس میں عسکریت پسندوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بارہ مولا سیکٹر میں بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا ہے۔
تصویر: REUTERS/M. Gupta
‘اڑی حملے میں پاکستان ملوث ہے‘
واضح رہے کہ 18 ستمبر کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اڑی سیکٹر پر عسکریت پسندوں کی جانب سے ہونے والے حملے میں 19 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت نے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آور پاکستان سے سرحد پار کرکے بھارت داخل ہوئے تھے۔ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Mughal
’سرجیکل اسٹرائیک‘
دونوں ممالک میں کشیدگی مزید اس وقت بڑھی جب چند روز قبل بھارتی افواج کی فائرنگ سے پاکستان کی فوج کے دو سپاہی ہلاک ہو گئے۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ایک ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کی۔ پاکستان نے بھارت کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Channi Anand
9 تصاویر1 | 9
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی امن پسند قوتیں اور کشمیری میدان عمل میں آئیں،''کیونکہ جنگ کی صورت میں صرف کشمیری ہی تباہ نہیں ہوں گے بلکہ پورا خطے تباہی کا شکار ہوگا۔ اس لیے پاکستان اور بھارت کی امن پسند قوتوں کو اس اجتماعی پاگل پن کو ختم کرنا پڑے گا جو ہمیں جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔‘‘
بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار طاہر مجید کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں اس وقت لوگ بہت جذباتی ہوئے ہوئے ہیں، ''یہاں بہت سارے لوگ چاہتے ہیں کہ جنگ ہو اور وہ چین کی مداخلت کو بھی اہم سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس سے مسئلہ شاید حل ہوجائے لیکن کشمیر میں ایک بڑی تعداد امن پسند عناصر کی بھی ہے، جو سمجھتے ہیں کہ جنگ نہ صرف کشمیر بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے خطرناک ہو گی کیونکہ دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ اس لیے میں تو اس کشیدگی اور تناؤ کے خلاف ہوں۔ میں پاکستان کی پراکسی کے بھی خلاف ہوں اور مودی کی انتہا پسندی کے بھی خلاف ہوں۔ کشمیر کا مسئلہ پر امن طریقے سے حل ہونا چاہیے۔‘‘