1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈی چوک پہنچنے والے کارکنان ’آخری بال‘ تک لڑیں، عمران خان

عثمان چیمہ
26 نومبر 2024

پی ٹی آئی کی قیادت کا کہنا ہے کہ عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات پورے ہونے تک ڈی چوک میں دھرنا جاری رہے گا۔ حکومتی وزرا مظاہرین کو بدستور سخت نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

 پی ٹی آئی نے عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات پورے ہونے تک ڈی چوک میں دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے
پی ٹی آئی نے عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات پورے ہونے تک ڈی چوک میں دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ہےتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

پاکستان تحریک انصاف کے ہزاروں کارکنوں کی حکومت کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاٹوں کو عبور کرتے ہوئے آج بروز منگل اسلام آباد کے ڈی چوک میں آمد کو جیل میں قید عمران خان اور ان کے حامیوں کی ایک بڑی سیاسی کامیابی  قرار دیا جا رہا۔

اسی دوران عمران خان نے اپنے کارکنوں پر زور دیا ہے کہ وہ ڈی چوک میں ڈٹے رہیں۔ سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے منگل کے روز جاری کردہ ایک بیان میں ان کا اپنے حامیوں سے کہنا تھا کہ وہ ''آخری بال تک لڑیں۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے،''مجھے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کی دھمکیاں دینے والوں کے لیے پیغام ہے کہ جو کرنا ہے کر لو، میں اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔‘‘

پی ٹی آئی کے کارکنوں اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیںتصویر: Irtisham Ahmed/picture alliance/AP

ان کا کہنا تھا کہ تمام لوگ  ڈی چوک پہنچیں۔ عمران خان نے الزام لگایا کہ وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی ہدایات پر رینجرز اور پولیس نے پی ٹی آئی کے کارکنان پر فائرنگ اور شیلنگ کی جس کے نتیجے میں پرامن شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔  

 دوسری جانب حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ مظاہرین کی جانب سے مزید پر تشدد کارروائیاں برداشت نہیں کی جائیں گی اور اگر کسی نے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو اس کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔

اسلام آباد سے منگل کی شام موصولہ اطلاعات کے مطابق ڈی چوک میں پہنچنے والے پی ٹی آئی کے کارکنان اپنے رہنماؤں کی تقاریر سننے اور شدید نعرے بازی کے کرنے کے بعد آہستہ آہستہ منتشر ہو کر قریبی علاقوں میں پھیل گئے، جہاں ان مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کے درمیان وقفے قفے سے جھڑپیں جاری ہیں۔

عینی شاہدین اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی بھاری شیلنگ کی جارہی ہے۔ تاہم ان کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے قائدین کی بات پر عمل کرتے ہوئے اس وقت تک ڈی چوک سے مکمل انخلا نہیں کریں گے جب تک عمران خان کی رہائی سمیت ان کے دیگر مطالبات پورے نہیں ہو جاتے۔

اسلام آباد میں سکیورٹی کے لیے پولیس اور رینجرز کے ساتھ ساتھ فوج بھی تعینات کی گئی ہے تصویر: Salahuddin/REUTERS

عمران خان کے بغیر واپس نہیں جائیں گے، بشریٰ بی بی

ڈی چوک پہنچنے والے قافلے کی قیادت عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے مشترکہ طور پر کی۔ ڈٰی چوک پہنچنے پر بشری ٰ بی بی نے کارکنان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے حلف لیا کہ وہ عمران خان کی رہائی تک ڈی چوک سے نہیں اٹھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنے ملک اور قوم کے لیے قید کاٹ رہے ہیں اور اب یہ اس ملک کے لوگوں کا کام ہے کہ وہ اپنے لیڈر کا ساتھ دیں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے بھی واضح کیا کہ وہ اپنے مطالبات کے منظور ہونے تک ڈی چوک میں دھرنا دیے رکھیں گے۔

وزیر داخلہ برہم 

 وزیرداخلہ محسن نقوی نے منگل کی شب مبینہ طور پر مظاہرین کی ایک تیز رفتار گاڑٰی کی ٹکر لگنے سے رینجرز کے چار اہلکاروں کی ہلاکت کے  واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ حکومت مظاہرین کی طرف سے اب مزید کسی بھی تشدد کو برداشت نہیں کرے گی۔

انہوں نے بشریٰ بی بی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں تمام مسائل کی وجہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور پی ٹی آٗی کی دیگر قیادت نے حکومت کی جانب سے مظاہرے کی جگہ میں تبدیلی کی پیشکش پر آمادگی ظاہر کی تھی لیکن وزیر داخلہ کے بقول،  ’’وہ (بشریٰ بی بی) پنےطریقے سے معاملات کو چلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘  محسن نقوی کا مزید کہنا تھا کہ حکومت لوگوں کی زندگیاں بچانا چاہتی ہے لیکن کسی انتہائی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سخت حکمت عملی اپنا سکتی ہے۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ  نے یہ اشارہ بھی دیا کہ کوئی خفیہ ہاتھ اس سارے معاملے میں ملوث ہے اور وہ ہاتھ مذاکرات نہیں چاہتا۔

وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ اب مظاہرین کی جانب سے کسی قسم کا مزید تشدد برداشت نہیں کیا جائے گاتصویر: Babar Shah/PPI Images/IMAGO/Newscom World

فوج اور مظاہرین آمنے سامنے

خیال رہے کہ حکومت نے ڈی چوک کی سکیورٹی کے لیے فوج کو طلب کر رکھا تھا تاہم جب مظاہرین ڈی چوک پہنچے تو وہاں ڈیوٹی پر تعینات فوجی جوانوں کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت  ریکھنے میں نہیں آئی۔

 مقامی ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایسی تصاویر اور ویڈیوز بھی دیکھنے میں آئیں، جن میں بعض فوجی جوانوں اور مظاہرین کو ڈی چوک میں رکھے کنٹینروں پر ایک ساتھ کھڑے دیکھے جا سکتا ہے۔ بعض ویڈیوز میں مظاہرین کو ڈیوٹٰی پر موجود فوجی جوانوں سے بغلگیر بھی ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ 

کیا واقعی کوئی خفیہ ہاتھ مظاہرین کی مدد کر رہا ہے؟

حکومت کی اتحادی پارٹی جمیعت علماء اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے وکیل اور سینٹر کامران مرتضٰی کا کہنا تھا، ''جو فورسز مظاہرین کو روکنے کے لیے موجود تھیں انہوں نے مزاحمت نہیں کی، اس کا مطلب ہے کہ یا تو معاملات کہیں اور لے جائے جا رہے ہیں یا حکومت بالکل نااہل ہے۔‘‘

 ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شہباز شریف اپنی کشش کھو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ''پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی تو ہے، اس کے بغیر یہ مارچ ڈی چوک نہیں پہنچ سکتا تھا۔‘‘

مظاہرین حکومتی رکاوٹیں توڑتے ہوئے ڈی چوک میں

01:56

This browser does not support the video element.

جے یو آئی کے علاوہ حکومت کی ایک اور اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے معاملات آگے بڑھیں گے، صورتحال زیادہ واضح ہوگی۔ انہوں نے کہا،'' پی ٹی آئی کو ڈی چوک پہنچنے میں سہولت کاری فراہم کی گئی ہے یا نہیں یہ بات وقت آنے پر واضح ہو جائے گی۔‘‘

صحافی حلقوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں 'خفیہ ہاتھ‘ کا زور شور سے زکر کیا جا رہا ہے۔ تاہم خاتون صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے ایسے کسی امکان کو رد کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں،"میرا خیال ہے کہ محسن نقوی مختلف انداز میں بشریٰ بی بی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ مظاہرین پر فائرنگ کرنا ممکن نہیں تھا۔ حکومت نے فائرنگ سے گریز کیا ہے۔ اس وقت ملک میں بیلا روس کے صدر موجود ہیں اور ریاست کسی بڑے انتشار کو دعوت نہیں دینا چاہے گی۔"

حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات؟

عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آٗی اور حکومت کے درمیان کہیں مذاکرات ہو بھی رہیں ہوں تو ان میں فی الحال کسی بریک تھرو کا امکان نظر نہیں آتا۔ انہوں نےکہا، "میرا نہیں خیال کہ حکومت انہیں کچھ پیشکش کر سکتی ہے۔ ایسا کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ حکومت یہ تسلیم کرے کہ پی ٹی آئی کارکنوں اور قیادت کے خلاف تمام مقدمات فوج کے کہنے پر بنائے گئے تھے، اور حکومت ایسا ہرگز نہیں چاہے گی۔‘‘

  عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ موجودہ مسئلے کا واحد حل بات چیت ہو سکتی ہے، لیکن ان کے بقول بشریٰ بی بی اس پر راضی ہوتی نظر نہیں آتیں۔ انہوں نے مزید کہا، ''یہ صورتحال الجھن پیدا کرتی ہے کہ حکومت کے پاس پیشکش کرنے کے لیے کچھ نہیں جبکہ تشدد اور مظاہرین پر فائرنگ کا راستہ بھی حل نہیں ہے۔"

’’حکومت دل بڑا کرے، مگر مظاہرین بھی لاٹھیوں کے ساتھ نہ آئیں‘‘

02:42

This browser does not support the video element.

'خیبر پختونخوا میں گورنر راج ممکن‘

پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے وزیر اعلی کے پی علی امین گنڈا پور کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ خود حکومت کا ایک حصہ رہتے ہوئے حکومت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ نوید قمرکا کہنا تھا، "ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا تو خیبر پختونخوا حکومت کا خاتمہ اور گورنر راج کا نفاذ ممکن ہو سکتا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ایسے اقدامات کرتے رہیں اور حکومت میں بھی رہیں۔‘‘

کامران مرتضی سمجھتے ہیں کے دھاندلی زدہ الیکشن اس فساد کی جڑ ہے اور نئے الیکشن ہونے چاہئیں۔ نوید قمر الیکشن کے متنازعہ ہونے کی حد تک ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں، " کیا ایک اور الیکشن مسائل کا حل ہے؟ ہمیں پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو سانس لینے کی جگہ دینی چاہیے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ حکومت عمران خان کو رہا کر کے خود کو غلط قرار نہیں دے سکتی۔ لیکن ایک ممکنہ حکمتِ عملی یہ ہو سکتی ہے کہ عدالتوں سے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو ضمانت ملنے کے بعد نئے مقدمات درج نہ کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ روایت رہی ہے کہ حکومتیں اپنے مخالفین کو نشانہ بناتی ہیں، اور یہی اس وقت ہو رہا ہے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں