1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ڈیجیٹل ورلڈعالمی

ڈی ڈبلیو جعلی خبروں کی فیکٹ چیکنگ کیسے کرتا ہے؟

19 مارچ 2023

ڈی ڈبلیو میں فیکٹ چیکنگ کا عمل اوسنٹ (OSINT) ٹولز کے ذریعے کی گئی تحقیق، آزاد ذرائع، شفافیت، تفصیلی دلائل، واضح فیصلوں اور غیر جانبدارانہ صحافت کے معیارات کی مدد سے مکمل کیا جاتا ہے۔

DW Fact Check Artikelbild mit Verdict EN
تصویر: Twitter/wilson6923

آج کے دور میں میڈیا اداروں کے لیے خبر یا سوشل میڈیا پر معلومات کی اشاعت سے قبل حقائق کی جانچ یعنی 'فیکٹ چیک‘ اور تصدیق کرنا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے، چاہے وہ فیک نیوز کی شناخت کرنا ہو یا آن لائن گردش کرنے والی ویڈیوز اور تصاویر کی تصدیق۔ یہ بالخصوص اس لیے بھی اہم ہے کہ اب صارفین کی ایک بڑی تعداد خبروں کے لیے ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات پر انحصار کرنے کے بجائے سوشل میڈیا اور خبر رساں اداروں کی ویب سائٹ یا ایپس کے ذریعے معلومات حاصل کر رہی ہے۔

صارفین کا خبروں کے لیے سوشل میڈیا پر انحصار ان کی سوچ کے غلط معلومات سے متاثر ہونے کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے اور یوں ان کی رائے کو ارادی طور پر متاثر کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں ہم نے ایسی کئی مثالیں دیکھی ہیں، جہاں صارفین کی رائے ان کو انہیں ارادی یا غیر ارادی طور پر فراہم کردہ غلط معلومات نے متاثر کیا۔

اس کی سب سے بڑی اور نمایاں مثال 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات ہیں۔ صارفین کی رائے کو متاثر کرنے کی اسی طرح کی کوششیں ہم نے 2021ء میں جرمنی میں اور 2022ء میں برازیل میں ہونے والے وفاقی انتخابات میں بھی دیکھیں۔ اس کی دیگر مثالیں کووڈ انیس کی عالمی وبا اور روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ سے متعلق پھیلنے والی غلط معلومات بھی ہیں۔

فیکٹ چیک: یوکرینی مہاجرین کے بارے میں جھوٹی کہانیاں کیسے پھیلائی جاتی ہیں؟

لیکن ایسے کسی بھی بڑے واقعے یا اہم پیش رفت کے بعد خبر رساں اداروں کے ایڈیٹرز اور فیکٹ چیکرز پر یہ ذمے دارای عائد ہوتی ہے کہ وہ متعلقہ خبر کے حوالے سے کیے جانے والے جعلی دعووں کی جانچ کریں، یہ دیکھیں کہ وہ آن لائن کس حد تک پھیل چکے ہیں، ان کی تصدیق کریں اور پھر اپنے صارفین کو حقائق سے آگاہ کریں۔

ڈی ڈبلیو میں خبر میں غلطیوں، جانبدارانہ رویے اور غلط بیانی کی کوئی جگہ نہیں۔ ہم خبر بناتے یا ایڈیٹ کرتے وقت 'فور آئیز پرنسپل‘ کو بروئے کار لاتے ہیں، جس سے مراد یہ ہے کہ خبر اشاعت سے پہلے چار آنکھوں، دو لکھنے والے کی اور دو ایڈیٹر کی، سے گزرتی ہے۔ پھر فیکٹ چیکنگ کے دوران یہ بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ خبر یا سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی معلومات افواہوں، غلط تفصیلات اور ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو۔

فیکٹ چیکنگ کے لیے موضوعات کا انتخاب

ڈی ڈبلیو میں فیکٹ چیکرز ہر موضوع کی جانچ کرتے ہیں، جن میں تمام سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں، مشہور شخصیات، کھلاڑیوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے دعوے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ آن لائن اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر اور ویڈیوز حقائق پر مبنی ہیں یا نہیں۔

اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کا ایک اور اقدام فیکٹ چیکنگ کے بارے میں مضامین کی اشاعت ہے۔ اس کا مقصد صارفین کو میڈیا سے متعلق مزید آگاہ کرنا اور ان کو یہ بھی سکھانا ہے کہ وہ خود 'اوپن سورس انٹیلیجنس' یا OSINT ٹولز کے ذریعے کیسے کسی خبر یا اطلاع کی تصدیق کر سکتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو اپنے صارفین کی طرف سے فیکٹ چیکنگ سے متعلق تجاویز بھیجے جانے کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ صارفین اس حوالے سے اپنی تجاویز factchecking@dw.com پر یا ڈی ڈبلیو کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی دے سکتے ہیں۔

صارفین کے بھیجے ہوئے موضوعات کا ہم باقاعدگی سے تجزیہ کرتے اور ان پر رپورٹ کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہم پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ آیا کوئی خبر یا بیان ایسے حقائق پر مبنی ہے جن کی تصدیق کی جا سکے۔

اس عمل کے دوران ہم یہ اندازہ بھی لگاتے ہیں کہ کوئی خبر کتنی بڑی یا اہم ہے۔ کسی بھی موضوع پر کام شروع کرنے سے پہلے ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے مقرر کردہ معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں، جس میں مندرجہ ذیل چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے:

’وائریلٹی‘: یہ اس بات کا جائزہ ہوتا ہے کہ کوئی خبر کتنی بڑی ہے۔ کیا یہ صرف ایک مخصوص خطے کے لیے اہم ہے یا عالمی اہمیت کی حامل ہے؟ اور یہ کتنی جلدی پھیل رہی ہے؟

’ریچ‘: اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی خبر کتنے لوگوں کی توجہ حاصل کر رہی ہے۔ وہ کتنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پھیل رہی ہے اور اس کے بارے میں کتنے صارفین بات کر رہے ہیں؟

’ریلیوینس‘: اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی خبر کس حد تک ہماری 'ٹارگٹ آڈیئنس‘ یا صارفین کے لیے اہم ہے اور انہیں متاثر کر سکتی ہے۔

لیکن ہماری فیکٹ چیکنگ کی صلاحیت اور وسائل لامحدود نہیں ہیں۔ ہم اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ ہم تمام موضوعات پر تحقیق کریں گے یا ہر دعوے یا بیان کے بارے میں مضامین لکھیں گے۔ یہ فیصلہ ہمارے ادارتی معیار، وسائل اور اس بات پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ کسی دعوے کی تصدیق کی جا سکتی ہے یا نہیں۔

خبر کے درست ہونے کی تصدیق کیسے کی جاتی ہے؟

کسی بھی خبر یا آرٹیکل کی اشاعت سے پہلے یہ ضروری ہے کہ متعدد تفصیلات کی تصدیق کی جائے، مثلاﹰ لوگوں کے نام، جگہوں کے نام اور کسی واقعے کے حوالے سے دیے گئے اوقات، تاریخ اور مقامات کی تفصیلات۔ اس کے علاوہ فیکٹ چیکنگ کے دوران اس بات کی جانچ بھی بہت اہم ہے کہ آیا کسی تصویر یا ویڈیو میں کوئی رد و بدل تو نہیں کیا گیا۔ یہ پتہ لگانا بھی بہت اہم ہے کہ کسی دعوے کی شروعات کہاں سے ہوئی، اس کے پیچھے کون ہے اور یہ کن ذرائع سے ہم تک پہنچا ہے اور پھر اس کی تصدیق کرنا اور ایسا ڈیٹا تلاش کرنا جس سے اسے سپورٹ کیا جا سکے۔

اس مقصد کے لیے ہم اوسنٹ (OSINT) ٹولز کا استعمال کرتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے ایک ویب سائٹ بنائی ہے، جہاں آپ معلومات کی تصدیق کے طریقہ کار اور اس کے لیے استعمال ہونے والے ایسے ٹولز کے بارے میں جان سکتے ہیں جن کا استعمال ہم خود بھی کرتے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر آپ ایسے ٹولز اور تکنیک کا استعمال سیکھ سکتے ہیں جن کے ذریعے تصاویر، ویڈیوز، آڈیو کلپس، ذرائع اور لکھی ہوئی معلومات کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔

شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ہمارے فیکٹ چیکنگ کے ہر آرٹیکل میں اس کے ذرائع سے متعلق معلومات اور ہائپر لنکس شامل کیے جاتے ہیں۔ تو ڈی ڈبلیو کے صحافی جن ذرائع کا استعمال کرتے ہیں، صارفین ان کی خود بھی جانچ کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ فیکٹ چیکنگ کی ہر ویڈیو کے لیے ذرائع کی ایک فہرست شائع کی جاتی ہے۔ ان ویڈیوز میں تمام معلومات غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق کے بعد شامل کی جاتی ہیں اور یہ 'ٹو سورس پرنسپل‘ پر مبنی یعنی کم از کم دو غیر جانبدار اور آزاد ذرائع سے تصدیق شدہ ہوتی ہے۔

کسی بھی دعوے کا جائزہ لینے اور اس سے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے ڈی ڈبلیو میں باہمی تعاون کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران مضمون کا مرکزی مصنف دو ایڈیٹرز کو اس کی درجہ بندی کے حوالے سے سفارشات پیش کرتا ہے۔

ڈی ڈبلیو میں یہ درجہ بندی مندرجہ ذیل  چار معیارات کے اعتبار سے کی جاتی ہے۔

 ’ٹرو‘، یعنی متعلقہ بیان درست ہے

’فالس‘، یعنی متعلقہ بیان غلط ہے

’مس لیڈنگ‘، یعنی متعلقہ بیان کسی حد تک صحیح ہے لیکن اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ اس سے غلط تاثر ملتا ہے

’اَن پرُوون‘، یعنی متعلقہ بیان کا صحیح یا غلط ہونا ثابت نہیں ہوسکا

جعلی خبریں کیسے پہچانی جاسکتی ہیں؟

01:39

This browser does not support the video element.

ذرائع کی شناخت

لوگوں کے انٹرویو کے ذریعے معلومات حاصل کرتے وقت ہم اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ایسے شخص کا انٹرویو کیا جائے جو قابل اعتبار ہو اور جانبدار نہ ہو۔ تمام انٹرویوز اس شخص کی اجازت سے ریکارڈ اور پھر آرکائیو کیے جاتے ہیں۔

شفافیت کو مکمل طور پر یقینی بنانے کے لیے ہم اپنے تمام ذرائع کا نام، پیشہ اور اگر ممکن ہو تو صارفین کے ان سے رابطے کے لیے تفصیلات بھی واضح کرتے ہیں۔ ذرائع کے نام صرف کچھ خاص کیسز میں ہی ظاہر نہیں کیے جاتے، مثلاﹰ اگر ان کی سکیورٹی کو کوئی خطرہ ہو یا متعلقہ آرٹیکل کا موضوع حساس نوعیت کا ہو۔ لیکن ان کیسز میں ہم ان کی شناخت ظاہر نہ کرنے کی وجہ بھی واضح کر دیتے ہیں۔

فیکٹ چیک: کیا کووڈ ویکسین لگوانے سے لوگ مر رہے ہیں؟

ڈی ڈبلیو میں فیکٹ چیکنگ کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ حقائق کی تصدیق کے لیے جب بھی ممکن ہو 'پرائمری سورسز‘ یا ان ذرائع پر انحصار کیا جائے جن سے متعلقہ معلومات بلاواسطہ طور پر حاصل کی گئی ہوں۔ ایسا اس لیے ہے کہ اس سلسلے میں 'سیکنڈری سورسز‘ یا ان ذرائع جن کے ذریعے تفصیلات بالواسطہ طور پر حاصل کی گئی ہوں، پر انحصار کرنے سے صارفین کے متعلقہ معلومات کی غلط تشریح کرنے یا غلط فہمی کا شکار ہو جانے کا امکان ہوتا ہے۔

اصلاح کی پالیسی

ہم نشر کی جانے والی تصاویر یا ویڈیوز میں کوئی تبدیلی نہیں کرتے۔ اگر ان میں شامل متن کی اصلاح یا اس میں کوئی تبدیلی کی جاتی ہے یا کسی ویڈیو کا کوئی حصہ دھندلا یا مزید بڑا کر کے دکھایا جاتا ہے تو ہم اس تبدیلی کی وجہ بھی واضح کر دیتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو میں ہم غلطیوں سے مبرا، درست اور اعلیٰ معیار کا مواد فراہم کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ لیکن اس عزم پر قائم رہنے کے لیے متعدد اقدامات کے باوجود غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ اہم یہ ہے کہ جیسے ہی ہمیں ان غلطیوں کا علم ہو، ہم شفاف طریقے سے ان کو تسلیم کر کے ان کی اصلاح کریں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم کوئی ایسا آرٹیکل شائع کریں جس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہو تو ہم اپنے صارفین پر یہ واضح کریں کہ اس میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اعداد و شمار، تاریخ، ناموں، جگہوں، بیانات اور تصاویر میں غلطیوں کی صورت میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ حقائق کی تصدیق کے فوراﹰ بعد ان میں موجود غلطیاں درست کر دی جاتی ہیں اور آن لائن یا سوشل میڈیا پر ان کو دوبارہ شائع کیا جاتا ہے۔

دوبارہ اشاعت کے وقت ایک نوٹ میں صارفین کو تبدیل کردہ تفصیلات اور اس عمل کی وجوہات سے بھی مطلع کیا جاتا ہے۔

غیر جانبداری کے اصول

ڈی ڈبلیو میں ہم اپنے صارفین کو معلومات غیر جانبدار طریقے سے فراہم کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ یہ عزم ہماری ساکھ، اقدار اور ہمارے صارفین کے ہم پر اعتماد کی بنیاد ہے۔

تمام موضوعات، خصوصاﹰ متنازعہ موضوعات، کی رپورٹنگ کے دوران ہم اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ مختلف آراء اور آوازوں کو اپنی اسٹوری میں شامل کیا جائے۔ اس طرح ہم اپنے صارفین کے لیے یہ سمجھنا آسان بنا دیتے ہیں کہ کیا چیز زیادہ اہم اور عوامی مفاد میں ہے۔

فیکٹ چیک: قطر میں ورلڈ کپ کی خاطر کتنے افراد ہلاک ہوئے؟

ایک فرد کی حیثیت سے ہم سب کے انفرادی تجربات، نظریات اور آراء ہیں، لیکن ہماری ذاتی رائے سے کسی بھی موضوع کی کوریج متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے ڈی ڈبلیو میں ہم حقائق رپورٹ اور معلومات پر مبنی تجزیہ فراہم کرتے ہیں، جو ہماری ذاتی رائے سے کسی بھی طرح متاثر نہیں ہوتے۔ کسی بھی آرٹیکل میں ذاتی رائے کی شمولیت صرف اس صورت میں کی جاتی ہے اگر یہ واضح کر دیا جائے کہ وہ ایک کسی شخص کی رائے پر مبنی ہے۔  

ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہم ہمیشہ غیر جانبداری کے اصولوں پر قائم رہیں اور اصولی صحافت کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھیں۔ یہ اصول ڈوئچے ویلے ایکٹ کے پانچوے حصے میں واضح کیے گئے 'بیسک پرنسپلز آف دی پروگرامز‘ پر مبنی ہیں۔

تو ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہماری حقائق کی جانچ اوسنٹ ٹولز کے ذریعے کی گئی تحقیق، آزاد ذرائع، شفافیت، تفصیلی دلائل، واضح فیصلوں اور ڈی ڈبلیو کے غیر جانبدارانہ صحافت کے معیارات پر مبنی ہوتی ہے۔

م ا / م م (ریچل بیگ)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں