1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈی ڈبلیو کا آزادی اظہار کا ایوارڈ السلواڈور کے صحافی کے نام

3 مئی 2023

السلواڈور کے صحافی اوسکار مارٹینیز ایسی نوویں شخصیت ہوں گے، جنہیں ڈی ڈبلیو کا آزادی اظہار کا ایوارڈ دیا جائے گا۔ انہیں یہ اعزاز وسطی امریکہ میں آزادی صحافت کے فروغ میں نمایاں خدمات انجام دینے پر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

Oscar Martinez | Chefredakteur von El Faro in El Salvador
تصویر: Alba Amaya/DW

جرمنی کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو ) نے بدھ تین مئی کے روز بتایا کہ ڈی ڈبلیو کا سال 2023ء کا آزادی اظہار کا ایوارڈ لاطینی امریکہ کے انتہائی معروف تحقیقاتی صحافیوں میں سے ایک اوسکار مارٹینیز کو دیا جائے گا۔

السلواڈور میں پیدا ہونے والے 40 سالہ صحافی مارٹینیز السلواڈور کے آن لائن میگزین 'ایل فارو‘ (مینارِ نور) کے ایڈیٹر ان چیف ہیں۔ یہ میگزین سن 1998میں بغیر بجٹ کے ایک پروجیکٹ کے طور پر شروع ہوا تھا اور پھر لاطینی امریکہ کا اہم تحقیقاتی میڈیا میں سے ایک بن گیا۔

ڈی ڈبلیو کے امسالہ فریڈم آف اسپیچ ایوارڈ کے حقدار کے نام کا اعلان اس جرمن نشریاتی ادارے کی 70ویں سالگرہ کی نسبت سے آج تین مئی کے روز کیا گیا۔

ڈی ڈبلیو کا آزادی اظہار ایوارڈ 2022 ایسوسی ایٹڈ پریس کے صحافی مسٹائسلوف چرنوف اور فری لانس فوٹو جرنلسٹ ییشکینی مالولیٹیکا کو دیا گیا تھاتصویر: Evgeniy Maloletka

آزادی صحافت کے لیے جدوجہد

ڈی ڈبلیو کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبورگ نے امسالہ ایوارڈ کے حقدار کے نام کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ''اوسکار مارٹینیز اور 'ایل فارو‘ میں ان کی ادارتی ٹیم السلواڈور میں آزادی صحافت اور آزادی رائے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پورے وسطی امریکہ اور السلواڈور میں صحافت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور وہاں شاید ہی کوئی آزاد صحافی باقی بچا ہو اور جو چند ایک ہیں، انہیں بھی اپنے ممالک کی حکومتوں کی طرف سے کارروائیوں کا سامنا ہے۔‘‘

گلوبل میڈیا فورم، میڈیا پر اعتبار سے جڑی آزادی صحافت

پیٹر لمبورگ نے مزید کہا، ''ہم اس ایوارڈ کے ذریعے اوسکار مارٹینیز کی ہمت اور اعتماد کا احترام کرتے ہیں تاکہ وہ ذاتی خطرات کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے قارئین کو آئندہ بھی آزادانہ معلومات فراہم کرتے رہیں۔‘‘

السلواڈور میں گزشتہ برس مارچ میں حکومت کی طرف سے ہنگامی حالت کے نفاذ کے ساتھ ہی اظہار رائے کی آزادی اور عام شہریوں کی اجتماع کی آزادی جیسے آئینی حقوق معطل کر دیے گئے تھے۔

اوسکار مارٹینیز کا اس موقع پر کہنا تھا، ''صحافت کو ان تاریک حالات میں بھی اپنی اس روشنی کو برقرار رکھنا چاہیے جسے طاقت ور افراد اندھیرے میں ہی رکھنا پسند کرتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ صحافت کو ان کہانیوں کو منظر عام پر لاتے رہنا چاہیے، جن پر طاقت ور لوگو ں نے پردہ ڈال رکھا ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کا فریڈم آف اسپیچ ایوارڈ انسانی حقوق، آزادی اظہار اور آزادی صحافت کی وکالت کرنے والی شخصیات یا تنظیموں کو ان کی نمایاں کارکردگی کے اعتراف میں دیا جاتا ہےتصویر: DW/P. Böll

ڈی ڈبلیو کا فریڈم آف اسپیچ ایوارڈ کیا ہے؟

ڈی ڈبلیوکے فریڈم آف اسپیچ ایوارڈ کا آغاز سن 2015 میں ہوا تھا۔ یہ ایوارڈ انسانی حقوق، آزادی اظہار اور آزادی صحافت کی وکالت کرنے والی شخصیات یا تنظیموں کو ان کی نمایاں کارکردگی کے اعتراف میں ہر سال دیا جاتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کا پہلا آزادی اظہار ایوارڈ سعودی عرب کے بلاگر رائف بدوی کو دیا گیا تھا۔ گزشتہ برس یہ ایوارڈ خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے صحافی اور ناول نگار مسٹائسلوف چرنوف اور فری لانس فوٹو جرنلسٹ ییشکینی مالولیٹیکا کو دیا گیا تھا۔ انہیں یہ ایوارڈ یوکرین سے روسی جنگ کی بے خوف اور غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کے لیے دیا گیا تھا۔

’کورونا کوریج‘ پر نشانہ بننے والے صحافیوں کے لیے ڈی ڈبلیو کا ایوارڈ

جرمنی کے شہر بون میں ہرسال منعقد ہونے والے ڈی ڈبلیو کے گلوبل میڈیا فورم میں اس آزادی اظہار ایوارڈ کے دیے جانے کی تقریب اس فورم کا ایک نمایاں حصہ ہوتی ہے۔

ذرائع ابلاغ، آزادی، اَقدار: گلوبل میڈیا فورم بون کی آمد آمد

ڈوئچے ویلے کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبورگ کے مطابق، ''فریڈم آف اسپیچ ایوارڈ ان تمام صحافیوں کے لیے ہماری حمایت کو ظاہر کرتا ہے جو عوام کے مفاد میں بے خوف ہو کر آزادانہ صحافت کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو خود بھی انہی پیشہ وارانہ قدروں کا علم بردار ہے۔‘‘

آزادیٴ صحافت کا عالمی دن: ڈی ڈبلیو کے نامہ نگاروں کے تاثرات

05:13

This browser does not support the video element.

ج ا / م م (ڈی ڈبلیو)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں