ڈی ڈبلیو کا اظہار آزادی ایوارڈ، دو یوکرینی صحافیوں کے نام
21 جون 2022
یوکرینی صحافی میٹیسلاف چیرنوف اور ایفگینی مالولیٹکا نے سال 2022 ء کے ڈی ڈبلیو کا ایوارڈ برائے آزادی اظہار جیتا ہے۔ انہیں یہ ایوارڈ روس کی طرف سے ماریوپول کے محاصرے کے دوران کے حالات کی عکس بندی پر دیا گیا ہے۔
اشتہار
چیرنوف امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ بطور ویڈیو جرنلسٹ منسلک ہیں۔ انہوں نے اور طویل عرصے سے ان کے ساتھی فوٹو جرنلسٹ ایفگینی مالولیٹکا نے رواں برس فروری اور مارچ میں ماریوپول کے حالات دنیا کے سامنے پیش کرنے پر ڈی ڈبلیو کا فریڈم آف اسپیچ ایوارڈ جیتا ہے۔ یہ ایوارڈ دو روزہ بین الاقوامی ایونٹ گلوبل میڈیا فورم 2022ء کے پہلے روز 20 جون کو ان صحافیوں کو دیا گیا۔
یہ دونوں صحافی 24 فروری کو روس کی طرف سے یوکرین میں فوج کشی کے آغازسے چند گھنٹے قبل ہی اس بندرگاہی شہر پہنچے تھے۔ مارچ کے وسط میں انہیں وہاں سے بے دخل کیے جانے سے قبل تک مسلسل تین ہفتے وہاں سے رپورٹنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔
خوفناک تفصیلات کی حامل ان کی تصاویر اور ویڈیوز اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ ماریوپول کو جو کبھی ایک ترقی کرتا ہوا شہر تھا، مسلسل روسی بمباری کے ذریعے کس طرح خاک و خون میں نہلا دیا گیا اور کس طرح کھنڈر بنا دیا گیا۔ ان صحافیوں نے ان تمام خوفناک حالات کی بھی عکس بندی کی جن میں ماریوپول کے رہائشی مبتلا رہے جہاں گیس اور بجلی بند کر دی گئی اور پینے کے پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔ انہوں نے ان اجتماعی قبروں کی بھی تصاویر بنائیں جو عام شہریوں اور بچوں کی لاشوں سے بھری ہوئی تھیں۔
چیرنوف اور مالولیٹکا دونوں کے لیے بحران زدہ خطوں سے رپورٹنگ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ چیرنوف اس سے قبل شام، عراق اور میانمار ہیں رپورٹنگ کر چکے ہیں جبکہ مالولیٹکا یوکرین کے متنازعہ علاقے ڈونباس اور کریمیا سے رپورٹنگ کے علاوہ یوکرین کے میدان انقلاب کی بھی رپورٹنگ کر چکے ہیں۔ مگر ان دونوں کے لیے ماریوپول سے رپورٹنگ ایک بالکل ہی الگ تجربہ تھا۔
روسی افواج کا ماریوپول پر نیا حملہ
روسی افواج نے یوکرینی ماریوپول شہر کے نواح میں واقع ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب ایک نئی جنگی کارروائی شروع کر دی ہے۔ روسی فورسز ماریوپول کی طرف سست مگر پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
ماریوپول کی طرف پیش قدمی
روسی فوج نے یوکرین کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں نئے حملوں کا آغاز کر دیا ہے۔ بالخصوص ماریوپول کے نواح میں واقع ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب ایک نئی جنگی کارروائی خونریز ثابت ہو رہی ہے، جہاں ایک ہی دن کی گئی کارروائی کے نتیجے میں اکیس شہری ہلاک جبکہ اٹھائیس زخمی ہو گئے۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
ازووِسٹال سٹیل پلانٹ نشانہ
روسی فورسز نے ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب بلاتفریق شیلنگ کی ہے۔ مشرقی دونستک ریجن میں اس روسی کارروائی کی وجہ سے بے چینی پھیل گئی ہے۔ یہ پلانٹ اب کھنڈر دیکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
قریبی علاقے بھی متاثر
ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریبی علاقوں میں بھی تباہی دیکھی جا سکتی ہے۔ مقامی افراد اور امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ روسی فوج کی شیلنگ کی وجہ سے شہری بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ بھرپور طاقت کے استعمال کے باوجود روسی افواج ابھی تک اس علاقے میں داخل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
لوگوں کا انخلا جاری
روسی حملوں کے بیچ ماریوپول سے شہریوں کا انخلا بھی جاری ہے۔ تاہم سکیورٹی خطرات کی وجہ سے اس عمل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ صورتحال ایسی ہے کہ کچھ پتہ نہیں کہ کب وہ روسی بمباری کا نشانہ بن جائیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
آنسوؤں کے ساتھ ہجرت
یوکرینی نائب وزیر اعظم نے ماریوپول کے مقامی لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ انہیں محفوظ علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔ ان کے مطابق شہریوں کے تحفظ اور ان کی محفوظ مہاجرت کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا ہے، جس کے تحت لوگوں کو جنگ زدہ علاقوں سے نکالا جا رہا ہے۔
تصویر: Francisco Seco/AP/dpa/picture alliance
جانے والے پیچھے رہ جانے والوں کی فکر میں
نئے حکومتی منصوبے کے تحت اسی ہفتے پیر کے دن 101 شہریوں کو ماریوپول سے نکال کر قریبی علاقوں میں منتقل کیا گیا۔ ان میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ علاقوں میں جانے والے البتہ اپنے پیاروں سے بچھڑ کر اداس ہی ہیں۔ زیادہ تر مرد ملکی فوج کے ساتھ مل کر روسی فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Francisco Seco/AP/picture alliance
یوکرینی فوج پرعزم
روسی فوج کی طرف سے حملوں کے باوجود یوکرینی فوجیوں کا کہنا ہے کہ ان کے حوصلے بلند ہیں۔ مغربی ممالک کی طرف سے ملنے والے اسلحے اور دیگر فوجی سازوسامان کی مدد سے وہ روسی پیش قدمی کو سست بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ یوکرینی فوجی جنگ کے ساتھ ساتھ شہریوں کے محفوظ انخلا کے لیے بھی سرگرداں ہیں۔
تصویر: Peter Kovalev/TASS/dpa/picture alliance
روس نواز جنگجوؤں کی کارروائیاں
ماریوپول میں روس نواز مقامی جنگجو بھی فعال ہیں، جو یوکرینی افواج کے خلاف برسرپیکار ہیں۔BM-21 گراڈ راکٹ لانچ سسٹم سے انہوں نے ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب حملے کیے، جس کی وجہ سے املاک کو شدید نقصان ہوا۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
روسی فوج کے اہداف نامکمل
چوبیس فروری کو شروع ہونے والی جنگ میں اگرچہ روسی افواج نے یوکرین کے کئی شہروں کو کھنڈر بنا دیا ہے تاہم وہ اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ روسی فوج نے شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، جس میں ماریوپول کا یہ اسکول بھی شامل ہے، جو روسی بمباری کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔
تصویر: Alexei Alexandrov/AP/picture alliance
ماریوپول کھنڈر بن گیا
روسی جارحیت سے قبل یوکرینی شہر ماریوپول کی آبادی تقریبا چار لاکھ تھی۔ یہ شہر اب کھنڈر بن چکا ہے۔ روسی فوج کی کوشش ہے کہ اس مقام پر قبضہ کر کے یوکرین کا بحیرہ اسود سے رابطہ کاٹ دیا جائے۔ اسی سمندری راستے سے یوکرین کو خوارک اور دیگر امدادی سامان کی ترسیل ہو رہی ہے۔
تصویر: Alexei Alexandrov/AP/picture alliance
10 تصاویر1 | 10
چیرنوف کے مطابق، ''یہ شاید اب تک کی سب سے زیادہ خطرناک اور سخت ترین اسائنمنٹ تھی، جس پر میں نے کیا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ''یہ جنگ انتہائی خطرناک اور ناقابل پیشگوئی تھی جس میں انتہائی جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ لہٰذا آپ کو اپنی زندگی سے متعلق پریشانی لاحق ہوتی مگر ساتھ ہی اس معاملے کی اہمیت کے پیش نظر آپ کو میٹیریل حاصل کرنے اور اسے بھیجنے کا دباؤ بھی ہوتا ہے۔‘‘
چیرنوف اور مالولیٹکا کو ماریوپول سے بے دخل کیے جانے کے قریب دو ہفتے بعد روسی فوجیوں نے لیتھوانیا کے ڈاکومنٹری فلم میکر مانتاس کویڈاراویچیوس کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔