1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈی ڈبلیو کی اردو سروس سے وابستہ صحافی عبدالغنی کا کڑ پر حملہ

شکور رحیم/ اسلام آباد21 اپریل 2014

پاکستانی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گزشتہ روز ڈی ڈبلیو کی اردو سروس سے وابستہ صحافی عبدالغنی کا کڑ پر حملہ ہوا ہے۔ کاکڑ کو کوئی جسمانی نقصان نہیں پہنچا ہے۔

دوسری جانب پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے معروف صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے سلسلے میں عدالتی کمشن کے لئے تین ججوں کے نام وزارت قانون کو بھجوا دیے ہیں۔ پیر کے روز سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے موصول ہونیوالی تحریری درخواست پر چیف جسٹس نے تین ججوں کے نام وزارت قانون کو بھجوا ئے ہیں۔ ان ججوں میں جسٹس انور ظہیر جمالی ،جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس اقبال حمید الرحمن شامل ہیں۔

ادھر حامد میر پر حملے کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں صحافتی تنظیموں کے زیر اہتمام اجتجاج کا سلسلہ تیسرے روز بھی جاری ہے۔ اس احتجاج کے باوجود ملک میں صحافیوں کو لاحق خطرات کم ہوتے نظر نہیں آرہے۔ اس کی تازہ ترین مثال پاکستانی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گزشتہ روز ڈی ڈبلیو کی اردو سروس سے وابستہ صحافی عبدالغنی کا کڑ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے۔

چھتیس سالہ کاکڑ کے مطابق اتوار کی شام جب وہ کوئٹہ پریس کلب سے اپنی کار میں نکلے تو انہوں نے محسوس کیا کہ گہرے سلیٹی رنگ کی ٹیوٹا "پراڈو" گاڑی میں سوار تین افراد مسلسل ان کا تعاقب کر ہے ہیں۔ صورتحال بھانپتے ہوئے وہ اپنی گاڑی مکران روڈ کے کنارے پارک کر کہ پولیس کو اطلاع دینے کے لئے جونہی نیچے اترے تو مذکورہ گاڑی نے ان کی کار کو ٹکر مار دی۔ خوش قسمتی سے چند لمحے پہلے گاڑی سے اترنے کے سبب کاکڑ تو محفوظ رہے لیکن دو راہگیر گاڑی کی ٹکر لگنے سے شدید زخمی ہو گئے۔

عبدالغنی کاکڑ کا کہنا ہے کہ ان پر چند سال پہلے بھی نامعلوم افراد نے حملہ کیا تھا جس میں وہ محفوظ رہے۔ انہوں نے کہا کہ خود کو کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں یونائیٹد بلوچ آرمی اور بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان ظاہر کرنیوالے افراد ٹیلی فون پر دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔ عبدالغنی کاکڑ کا مزید کہنا تھا،" اس کے علاوہ ایک اور تنظیم ہے جو کہ اکثر مختلف واقعات کی بلوچستان میں زمہ داری قبول کرتی رہی ہے 'بلوچ واجہ لبریشن آرمی' کے نام سے یہ ورنہ بلوچ نامی ایک آدمی تھا جس نے مھجے کئی بار دھمکی دی کہ آپ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے آپ ہماری فہرست میں ہیں تو اس قسم کی سر گرمیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں"۔

حامد میر پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے سلسلے میں عدالتی کمشن کے لئے تین ججوں کے نام وزارت قانون کو بھجوا دیے گئے ہیں۔تصویر: picture-alliance/dpa

پولیس نے ابھی تک اس واقع کی ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔ اس معاملے کی تفتیش کرنیوالے سٹیلائیٹ ٹاؤن تھانے کے تفتیشی افسر محمد رفیق کا کہنا تھا کہ اس واقعے کا روزنامچے میں اندراج کرنے کہ تفتیش کی جا رہی ہے۔ مقدمے کی تحقیقات میں اب تک کی پیشرفت کے بارے میں انہوں نے کہا،"ہم نے موقع دیکھا ، جو بندے زخمی تھے انہوں نے بھی بیان دیا ہے ۔ غنی صاحب نے گاڑی کا نمبر دیا تھا اسی ٹائم کنٹرول روم سے کال چلا دی تھانے کو نمبر نوٹ کرا یا کہ جہاں کہیں بھی گاڑی نظر آئے اس کو روکیں، پکڑیں"۔

تفتیشی افسر کے مطابق اس پہلو پر بھی تفتیش کی جائے گی کہ کہیں عقب سے آنے والی گاڑی کی تیز رفتاری کی وجہ سے سڑک کنارے کھڑی غنی کاکڑکی گاڑی کو حادثہ تو پیش نہیں آیا۔

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان چندا کا کہنا ہے انہوں نے عبالغنی کاکڑ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر مزمتی بیان جاری کیا ہے اور وہ اس معاملے کا مختلف زاویوں سے جائزہ لے رہے ہیں۔ اُن کے بقول، بلوچستان کے صحافیوں کو مخلتف خطرات کا سامنا ہے ۔

"ہمارے تیس کے قریب بلوچستان میں جرنلسٹ شہید ہو چکے ہیں ۔ ابھی ہماری جدو جہد کے نتیجے میں حکومت نے کچھ ایف آئی آر درج کی ہیں اور اس پرعدالتی کمشن بنانے کے لئے بھی وزیر اعلی نے یقین دہانی کرائی ہے"۔

خیال رہے کہ صحافیوں کی بین لاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لئے خطرناک ترین ملک ہے ۔ اس تنظیم کے مطابق 2003 ء کے بعد سے پاکستان میں صحافیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور ایک دہائی میں 23 صحافیوں کو ہدف بنا کر قتل کیا جاچکا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں