روسی دارالحکومت میں ڈی ڈبلیو سے منسلک ایک صحافی کو کچھ وقت کے لیے حراست میں لینے کے بعد رہا کر دیا گیا۔ سرگئی دیک نامی صحافی ڈی ڈبلیو کے روسی ڈیسک پر کام کرتے ہیں۔
اشتہار
صحافی سرگئی ڈیک اپنے آئی فون کے ذریعے ماسکو کے ٹروبنایا اسکوائر پر حکومت مخالف مظاہرے کی عکاسی میں مصروف تھے، جب انہیں روس کی خصوصی پولیس کے اہلکاروں نے اپنی حراست میں لیا۔ ٹروبنایا اسکوائر روسی دارالحکومت ماسکو کے وسطی حصے میں واقع ہے۔
ڈی ڈبلیو سے منسلک صحافی کے پاس ڈی ڈبلیو کا خصوصی کارڈ اور صحافتی سرگرمیوں کی کوریج کے لیے روسی وزارت خارجہ کا خصوصی تصدیق شدہ اجازت نامہ بھی ہے۔ حراست میں لیے جانے کے بعد سرگئی ڈیک نے اپنی شناخت کی تفصیلات بھی فراہم کیں۔
ڈیک نے تحویل میں لیے جانے کے بعد خصوصی پولیس کے اہلکاروں کو بتایا کہ وہ صحافی ہیں اور جرمن ادارے ڈوئچے ویلے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ انہوں نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ وہ وزارت خارجہ کا اجازت نامہ بھی رکھتے ہیں۔ ان دستاویزات کو دیکھنے کے بعد روسی خصوصی پولیس کے اہلکاروں نے ان کو 'بیکار کاغذات‘ قرار دیا۔
کاغذات دیکھنے کے بعد سرگئی ڈیک کو دیگر بیس افراد کے ہمراہ ایک پولیس وین میں بٹھا کر ایک قریبی مارینو پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا گیا۔ مارینو پولیس اسٹیشن جنوب مشرقی ماسکو کے علاقے میں واقع ہے۔ ڈیک کے مطابق تھانے پہنچائے جانے والوں میں ایک کم سن اور ایک دوسرا صحافی بھی شامل تھا۔
رہائی کے بعد سیرگئی ڈیک نے مزید بتایا کہ کہ اُن کو حراست میں لیا جانا حیران کن ضرور تھا لیکن جلد رہائی حیران کن نہیں تھی کیونکہ مظاہرے کے مقام پر پولیس کے اہلکار اپنی مرضی سے کسی کو بھی اپنی تحویل میں لینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس اہلکار نوجوانوں، خواتین اور بوڑھے افراد کو زبردستی گرفتار کر رہے تھے۔
سیرگئی ڈیک نے یہ بھی بتایا کہ پولیس اسٹیشن پر موجود عملے کو انہوں نے اپنے صحافی ہونے کے کاغذات دکھانے کے علاوہ وہ ای میل بھی دکھائی جس میں ڈی ڈبلیو نے انہیں اس مظاہرے کی کوریج کرنے کی خصوصی ہدایت کی تھی۔
ڈیک کے مطابق مارینو تھانے کے اہلکار ان کی حراست پر شش و پنج میں مبتلا ہو گئے کہ ایک صحافی کو حراست میں لے کر تھانے کیوں پہنچایا گیا اور پھر رہائی کا عمل جلد مکمل ہو گیا۔ سیرگئی ڈیک نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنی حراست پر قطعاً خوفزدہ نہیں ہوئے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔
ماسکو میں مظاہرے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود حکومت مخالف مظاہرے میں ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا۔
ع ح، ش ح، نیوز ایجنسیاں
روسی قوم پرست زاروں کی واپسی کے خواہش مند
’آرتھوڈوکس عقیدہ یا موت‘ یہ ان کا نعرہ جنگ ہے۔ روس میں شاہی نظام کا حامی ایک مذہبی گروہ زاروں کے شاہی دور کو پھر زندہ کرنا چاہتا ہے اور وہ بھی آرتھوڈوکس کلیسا کی مدد سے۔ ماضی کے روسی بادشاہ ’زارِ روس‘ کہلاتے تھے۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
’سربراہ مملکت کوئی زار ہو‘
لیونڈ سیمونووچ بنیاد پرستوں کی ’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ کے سربراہ ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ روسی مملکت کی سربراہی کسی زار کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔ یہ گروہ اپنے اجتماعات اور مظاہروں کے ذریعے اپنی سوچ دوسروں تک پہنچاتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
کلیسا کا تعاون ضروری
لیونڈ سیمونووچ کہتے ہیں، ’’ہم بالکل ویسی ہی ایک مستحکم سلطنت کے قیام کی کوششیں کر رہے ہیں، جیسی روسی زاروں کے دور میں تھی۔‘‘ ان کے بقول ایسا کرنا صرف کلیسا کی مدد سے ہی ممکن ہے، ’’لادینیت اس کے لیے موزوں نہیں کیونکہ اس سے آمریت جنم لیتی ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
زار خاندان کا قتل
سترہ جولائی 1918ء کو زار نکولائی دوئم اور ان کے اہل خانہ کو قتل کر دیا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ انقلابی رہنما لینن کے کہنے پر انہیں یہ سزا دی گئی تھی۔ اس طرح روس میں تین سو سال پرانی رامانوف بادشاہت کا خاتمہ بھی ہو گیا تھا۔ زار خاندان کے قتل کے ایک سو سال پورے ہونے پر ’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ نے ماسکو کے معروف اشپاسو اندرونیکوف راہب خانے کی طرف مارچ بھی کیا تھا۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
سیاہ لباس اور بینر اٹھائے ہوئے
’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ صرف مطلق العنان حکومت کی بحالی کا مطالبہ ہی نہیں کرتی بلکہ وہ روسی قوم پرستی کو دوبارہ زندہ کرنے کی بات بھی کرتی ہے۔ اس تنظیم کے ارکان سیاہ لباس اور سیاہ رنگ کے جوتے پہنتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر روک موسیقی کے کسی کلب کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ ان افراد کے پاس صلیب جیسی مسیحی مذہبی علامات بھی ہوتی ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
یادگار تصاویر سے آرائش
اس گروپ کے زیادہ تر لوگ آرائش کے لیے پرانی اور یادگار تصاویر دیواروں پر لگاتے ہیں۔ پال اس گروپ کے رکن ہیں اور ان کے کمرے کی دیواروں پر اُن تمام آرتھوڈوکس مسیحی خانقاہوں اور راہب خانوں کی تصاویر آویزاں ہیں، جن کے وہ دورے کر چکے ہیں۔ اس گروپ کے کچھ ارکان کی رائے میں معاشرتی تبدیلی کے لیے طاقت کے بل پر ایک انقلاب کی ضرورت ہے جبکہ دیگر ارکان زاروں کے شاہی دور کی واپسی کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
مقدس زار
سن 2000ء میں روسی آرتھوڈوکس کلیسا نے قتل کر دیے جانے والے زار روس نکولائی دوئم اور ان کے اہل خانہ کو سینٹ کا درجہ دے دیا تھا۔ تاہم آرتھوڈوکس کلیسا کے پیروکاروں کی ایک مختصر تعداد نے ہی زار خاندان کے ارکان کے لیے مذہبی تقدیس کے اعلان کے بعد منعقد کردہ کلیسائی تقریب کے سلسلے میں خوشیاں منائی تھیں۔
تصویر: Reuters/E. Anchevskaya
’آرتھوڈوکس مسیحی عقیدہ یا موت‘
روسی شہریوں کی ایک بہت بڑی اکثریت مسیحیت کے آرتھوڈوکس عقیدے کی پیروکار ہے۔ اس کے باوجود ’یونین آف آرتھوڈوکس فلیگ کیریئرز‘ اس لیے اس عقیدے کے پرچار کی کوشش کرتی ہے کہ اس کے نزدیک اس مسیحی فرقے کو مزید پھیلنا چاہیے۔