جمعرات کے روز عالمی رہنما فرانسیسی علاقے نارمنڈی میں ڈی ڈے کی 80ویں سالانہ یادگاری تقریبات میں شریک ہوئے اور اشتراک عمل کے عزم کا اظہار کیا۔
اشتہار
چھ جون انیس سو چوالیس کو اتحادی ممالک کے ڈیڑھ لاکھ فوجی فضائی اور سمندری راستے سے فرانسیسی علاقے نارمنڈی کے ساحلوں پر اترے تھے اور یہیں سے نازی جرمنی کی افواج کی پسپائی کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جو بعد میں نازی فوجیوں کی مکمل شکست پر منتج ہوا۔
ایک وقت جب یوکرینی جنگ کی صورت میں ایک لڑائی یورپی سرحدوں پر جاری ہے، رواں برسڈی ڈے کی تقریبات اور بھی زیادہ اہمیت کی حامل قرار دی جا رہی ہیں۔
اس بار ''ڈی ڈے‘‘ کی تقریبات اس لیے بھی اہم ہیں کیوں کہ روان برس یورپی پارلیمان کے انتخابات کے علاوہ امریکہ سمیت متعدد مغربی ممالک میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ اسی تناظر میں رہنما ''آئسولیشنزم‘‘ یا تنہائی پسندی اور انتہائی دائیں بازو کی بڑھتی قوت کو دوسری عالمی جنگ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے ڈی ڈے کے لیے فرانس کی جانب پرواز سے قبل کہا، ''جمہوریت رواں برس ووٹوں کے سہارے پر ہے۔ ڈی ڈے کی قربانیوں کو کسی صورت فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘
چھ جون کو اتحادی افواج کے چھاتا برداروں کے اترنے کے مقامات میں سے ایک ایرومانشے لے بائی ساحل پر چند افراد اسی برس قبل کے واقعے کی یاد میں جمع ہوئے۔ اس موقع پر دوسری عالمی جنگ میں استعمال ہونے والی چند گاڑیاں بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
نارمنڈی میں آج کی تقریب میں چند ایسے سابقہ فوجی بھی شامل ہوئے، جو اسی برس قبل نازی فوجوں کے خلاف اس بڑے اتحادی آپریشن کا حصہ تھے اور اب جب کہ ان کی عمریں سو برس کے لگ بھگ ہیں۔ ان میں سے کئی کی زندگیوں میں ممکنہ طور پر آج کا یہ ایونٹ آخری بڑا ایونٹ ہو گا، جس میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔
اس موقع پر دو سو سابقہ فوجی جن میں بڑی تعداد امریکی اور برطانوی فوجیوں کی ہے، نارمنڈی کے کئی ساحلوں پر ہونے والی ڈی ڈے تقریبات میں شریک ہو رہے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ چھ جون انیس سو چوالیس کو ہزاروں جہازوں کی مدد سے ڈیڑھ لاکھ کے قریب چھاتا بردار فرانسیسی ساحلوں پر اترے تھے، جن میں سے ہزاروں نازی فوجوں کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے تھے۔
ان تقاریب میں حصہ لینے والوں میں ایک سو ایک سالہ بوب گبسن بھی شامل ہیں، جو نارمنڈی کے یوٹا نامی ساحل پر اترے تھے۔ وہ فوجیوں کی دوسری کھیپ کے ساتھ یہاں اتارے گئے تھے۔
ڈی ڈے، ہٹلر کی فوجوں کے خلاف دوسرا محاذ
ستّر برس قبل چھ جون کو اتحادی افواج فرانسیسی ساحلی علاقے نارمنڈی پر اتری تھیں۔ اسے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی ابتدا بھی کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فیصلے کا دن
فرانس کے ساحلی علاقے نارمنڈی پر چھ جون 1944ء کی صبح اتحادی افواج اتری تھیں۔ اس دن کو ’ڈی ڈے‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ غیر واضح ہے کہ اس میں ڈی’ ڈسیشن‘ کے لیے استعمال ہو ا یہ یا صرف ڈے یعنی دن کے لیے۔ بہرحال یہ فیصلے کا دن ضرور تھا۔ اُس دور میں اِن علاقوں پر آڈولف ہٹلر کی افواج کا قبضہ تھا۔ نارمنڈی میں اتحادی اقواج کے اترنے کے ساتھ ہی ہٹلر کے خلاف دوسرا محاذ کھل گیا تھا۔
تصویر: Imago
آپریشن اوور لوڈ
اس فوجی کارروائی کو آپریش اوور لوڈ کا نام دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ نارمنڈی کے مختلف ساحلی علاقوں کو بھی خفیہ عسکری نام دیے گئے تھے۔ اس وقت چودہ مختلف ملکوں کی افواج نارمنڈی پر اتری تھیں اور اسی وجہ سے اسے ایک تاریخی واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Imago
کمانڈر ان چیف
امریکی جنرل ڈوائٹ ڈی آئزنہوور شمالی یورپ میں اتحادی افواج کی سربراہی کر رہے تھے۔ اس کے بعد وہ امریکا کے 34 ویں صدر بھی بنے۔
تصویر: Imago
چھ جون 1944ء کی صبح
خفیہ آپریشن اوورلوڈ کے آغاز سے قبل نارمنڈی کے ساحلی علاقوں پر موسم شدید خراب ہو گیا۔ مسلسل بارش، تیز ہوا اور بھپری ہوئی لہروں کی وجہ سے اس کارروائی کو چھ جون تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا اور پھر منصوبے کے مطابق چھ جون کو عسکری تاریخ کے اس سب سے بڑے لینڈنگ آپریشن کی ابتدا ہوئی
تصویر: public domain
لینڈنگ آپریشن
ڈی ڈے کے دوران تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار فوجی نارمنڈی کے ساحلوں پر اترے تھے۔ نازی جرمن فوجیوں نے وہاں پر ’ایٹلانٹک والز‘ کے نام سے ایک حفاظتی دیورا تعمیر کی ہوئی تھی۔ اس موقع پر اتحادی فوجیوں کو ساحل پر اترنے کے بعد اس دیوار تک کا فاصلہ طے کرنا تھا، جو ایک انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔
تصویر: AP
چھاتہ بردار
اس آپریشن کے دوران سب سے پہلے چھاتہ بردار فوجی ہی محاذ پر اترے تھے تاہم ان میں سے زیادہ تر زمین پر پہنجنے سے پہلے فضا میں ہی دشمنوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے تھے۔ اسی وجہ سے انہیں اس جنگ کا ہیرو قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Imago
فضائی اور سمندری کارروائی
اتحادی افواج نے نارمنڈی کے ساحلوں پر پہلے بمباری کی اور اس کے بعد چھاتہ بردار دستے اترے تھے۔ بعد میں ایک ہزار جنگی بحری جہاز اور تقریباً 4 ہزار دو سو جنگی کشتیاں فرانسیسی ساحلوں پر پہنچیں۔ اس کارروائی میں جنگی طیاروں اور ٹینکوں کا بھی استعمال کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
آڈولف ہٹلر کے اندازے
چھ جون 1944ء کو ہٹلر جرمنی اور آسٹریا کی سرحد پر واقع بالائی زالزبرگ کے علاقے میں تھا۔ ڈیر اشپیگل نامی جریدہ لکھتا ہے کہ ہٹلر کو صبح دس بجے اس حملے کے بارے میں بتایا گیا کیونکہ کسی بھی فوجی کی ہٹلر کو جگانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ ہٹلر نے جاگتے ہی غصے میں کہا کہ ’’ کیا کوئی اچھی خبر نہیں ہو سکتی تھی۔‘‘
تصویر: picture-alliance/akg-images
گیارہ ماہ
نارمنڈی پر اتحادی افواج کے اترنے کو دوسری عالمی جنگ کا ایک اہم ترین موڑ کہا جاتا ہے لیکن یورپ میں جنگ مکمل طور پر ختم ہونے میں گیارہ ماہ لگ گئے تھے۔ آپریشن اوورلوڈ کے اختتام کے بعد اس کارروائی میں حصہ لینے والے بہت سے فوجیوں کو ایشیا پیسیفک ممالک میں لڑنے کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔
تصویر: AP
جنگ کے ہیرو
آپریشن اوور لوڈ کے دوران 57 ہزار اتحادی فوجی ہلاک ہوئے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد زخمی ہوئے جبکہ ایک اندازے کے مطابق اٹھارہ ہزار لاپتہ ہوئے۔ دوسری جانب مرنے والے نازی جرمن فوجیوں کی تعداد دو لاکھ کے قریب تھی۔
تصویر: AP
دشمنی دوستی میں بدل گئی
دس سال قبل پہلی مرتبہ کسی جرمن سربراہ حکومت نے ڈی ڈے کی تقریبات میں شرکت کی تھی۔ اس موقع پر جرمن چانسلر گیرہارڈ شرؤڈر نے کہا تھا ’’ ہم اس جنگ میں ہلاک ہونے والوں کو نہیں بھولیں گے‘‘۔ اس تقریب کے دوران وہ اُس وقت کے فرانسیسی سربراہ مملکت ژاک شیراک سے بغلگیر ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
11 تصاویر1 | 11
گبسن کہتے ہیں، ''یوں لگتا ہے جیسے یہ کل کا واقعہ ہے۔ آپ یقین نہیں کر سکتے جو میں نے دیکھا۔ انتہائی خوف ناک۔ میرے بعض نوجوان دوست ساحل پر ہی نہیں پہنچ سکے۔ کبھی کبھی میں رات میں اٹھ بیٹھتا ہوں۔‘‘
آج کی ان تقریبات میں امریکی صدر جو بائیڈن، فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں، یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی، برطانوی بادشاہ چارلس، جرمن چانسلر اولاف شولس اور متعدد دیگر رہنما شریک ہوئے۔