پاکستانیوں کی خدمت کرنے والی جرمن ڈاکٹر کے لیے اعلیٰ اعزاز
18 دسمبر 2020
پاکستان میں تعینات جرمن سفیر نے لیپرسی(جذام) ہسپتال راولپنڈی کی ڈائریکٹر ڈاکڑ کرس شموٹسر کو ان کی خدمات کے اعتراف میں جرمنی کا اعلیٰ ترین اعزاز'جرمن آرڈر آف میرٹ‘ کا ایوارڈ دیا ہے۔
اشتہار
ڈاکٹر کرس شموٹزرگزشتہ 33 سالوں سے راولپنڈی کے لیپرسی ہسپتال سے وابستہ ہیں اور پاکستان میں جذام ، تپِ دق، آنکھوں اور جلد کی بیماری میں مبتلا پاکستانی مریضوں کی خدمات کر رہی ہیں۔ جرمن حکومت کی جانب سے یہ اعلیٰ ترین اعزاز انسانی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے دیا جاتا ہے۔
'جرمن پروٹیسٹنٹ سِسٹر ہُڈ آف کرائسٹ بئیررز‘ کی رکن ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر کرس جنہیں پاکستان میں 'جرمن سسٹر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے نے سن 1988 میں طب کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ تب سے وہ پاکستان میں جذام اور تپِ دق کی بیماری کے خاتمے کے لیے بے پناہ خدمات سر انجام دے چکی ہیں۔ انہوں نے کراچی میں لیپرسی سنٹر اور ڈاکٹر روتھ فاؤ کے ساتھ مل کر بھی بہت کام کیا ہے۔
اسلام آباد میں جرمن سفارتخانے میں تقریب کے دوران انہیں جرمن سفیر بیرنہارڈ شلاگ ہیک کی جانب سے 'جرمن آرڈر آف میرٹ‘ دیا گیا۔ اس موقع پر جرمن سفیر کا کہنا تھا، '' انسانیت کی خدمت کے شعبے میں ڈاکٹر کرس سب کے لیے مشعل راہ ہیں۔ تینتیس سال قبل انہوں نے انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا ارادہ کیا۔ نہ صرف راولپنڈی بلکہ ملک بھر میں وہ ایک انتہائی ہمدرد ڈاکٹر کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ یہ ہمیشہ ضرورت مند اور بیمار مریضوں کو فوقیت دیتی ہیں۔ جرمن صدر کی جانب سے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں یہ اعلیٰ اعزاز دیا جارہا ہے۔‘‘
جرمنی کا ایوار ڈ 'آرڈر آف میرٹ‘ 1951 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ یہ ان جرمن اور غیر ملکی شہریوں کو دیا جاتا ہے جو اقتصادیات، سماجی، سیاسی، انسانیت کی خدمت جیسے شعبوں میں غیر معمولی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ کی چوتھی برسی
پاکستان میں جذام کے مریضوں کی مسیحا جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ نے پچاس برس سے زائد کا عرصہ پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جنگ کرتے ہوئے گزارا۔ آج ڈاکٹر روتھ فاؤ کی چوتھی برسی ہے۔
تصویر: DAHW/M.Gertler
محض ایک اتفاق
دوسری عالمی جنگ کی دہشت کے بعد ڈاکٹر روتھ فاؤ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گی۔ تاہم ڈاکٹر فاؤ کا پاکستان جانا اور وہاں فلاحی کام کرنا محض ایک اتفاق تھا۔
تصویر: DAHW/Bauerdick
کراچی میں پڑاؤ
سن انیس سو ساٹھ میں ڈاکٹر روتھ کو بھارت میں کام کرنے کی غرض سے جانا تھا لیکن ویزے کے مسائل کی وجہ سے انہیں کراچی میں پڑاؤ کرنا پڑا۔ اسی دوران انہیں جذام سے متاثرہ افراد کی ایک کالونی میں جانے کا موقع ملا۔ مریضوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان میں ہی رہیں گی اور ایسے مریضوں کی مدد کریں گی۔
تصویر: DAHW
کلینک کا قیام
اس کے بعد سن 1963ء میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کا قائم کردہ کلینک جلد ہی جذام سے متاثرہ افراد کے لیے ايک دو منزلہ ہسپتال میں تبدیل ہو گیا اور رفتہ رفتہ پاکستان بھر میں اس کی شاخیں کھول دی گئیں۔
تصویر: DAHW/B.Kömm
ہزاروں مریضوں کا علاج
ان کے قائم کیے گئے ہسپتال میں نہ صرف ڈاکٹروں کو تربیت دی گئی بلکہ ہزاروں مریضوں کا علاج بھی کیا گیا۔ ان کی انہی کاوشوں سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نےسن 1968ء میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ایک قومی پروگرام کا آغاز بھی کیا تھا۔
تصویر: DAHW
پاکستان سے محبت
روتھ فاؤ پاکستان کے بارے میں کہتی تھیں ، ’’مجھے پاکستان میں کبھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔ میں نے لوگوں کی خدمت کے لیے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں بھی کام کیا ہے، جہاں زیادہ تر لوگ مجھے میرے کام کی وجہ سے جانتے ہیں اور کبھی بھی کسی نے میرے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
تصویر: DAHW/M.Gertler
دو دن اور دو راتیں
سن 1929ء میں جرمن شہر لائپزگ میں پیدا ہونے والی روتھ فاؤ اس وقت 17 برس کی تھیں، جب انہوں نے مشرقی جرمنی سے سرحد پار کر کے مغربی جرمنی آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ماضی کے مغربی جرمنی میں داخلے کے لیے وہ مسلسل دو دن اور دو راتیں چلتی رہی تھیں۔
تصویر: DAHW/R.Bauerdick
خوشحال زندگی کے خواب
خوشحال زندگی گزارنےکے لیے اتنی مشکلات کا سامنا کرنے والی روتھ فاؤ نے تمام زندگی پاکستانی صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں خدمات انجام دیتے گزار دی۔
تصویر: DAHW/M.Gertler
خاموش ہیرو کا ایوارڈ
ڈاکٹر روتھ فاؤ کو سن دو ہزار بارہ میں جرمنی میں ’خاموش ہیرو‘ کا بین الاقوامی میڈیا ایوارڈ ’بامبی‘ بھی دیا گیا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ کو یہ میڈیا پرائز جرمنی کے شہر ڈوسلڈورف ميں منعقدہ ايک تقريب ميں دیا گیا تھا، جہاں دنیا بھر سے ٹیلی وژن اور فلم کی ایک ہزار سے زائد شخصیات جمع تھیں۔