1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

کئی صدیوں بعد اب جرمن خواتین کو بھی مچھلیاں پکڑنے کی اجازت

1 ستمبر 2020

جرمنی کے ایک چھوٹے سے جنوبی شہر میں کئی صدیوں بعد اب خواتین کو بھی مچھلیاں پکڑنے کی اجازت مل گئی ہے۔ اس شہر میں سینکڑوں برسوں سے مچھلیاں پکڑنے کا ایک سالانہ مقابلہ منعقد ہوتا ہے، جس میں خواتین کی شرکت پر پابندی تھی۔

تصویر: picture-alliance/dpa/B. Wüstneck

یہ شہر جنوبی جرمن صوبے باویریا میں واقع ہے، اس کا نام مَیمِنگن (Memmingen) ہے اور آبادی تقریباﹰ 44 ہزار۔ وہاں ہر سال اس شہر کے وسط سے گزرنے والی میٹھے پانی کی ایک بہت چوڑی ندی سے مچھلیاں پکڑنے کا مقابلہ ہوتا ہے، جس کے فاتح کو 'ماہی گیروں کا بادشاہ‘ یا 'فشر کنگ‘ ہونے کا اعزاز ملتا ہے۔ اس ندی کے میٹھے پانی سے اس مقابلے کے شرکاء یہ مچھلیاں اپنے ہاتھوں سے پکڑتے ہیں۔

'مَیمِنگن فشر ڈے‘

لیکن روایتی طور پر اس مقابلے میں خواتین کو شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ کچھ عرصہ قبل ایک مقامی خاتون نے اس بارے میں ایک علاقائی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا تھا کہ یہ مقابلہ، جو 'مَیمِنگن فشر ڈے‘ کہلاتا ہے، اس شہر کا اہم ترین عوامی مقابلہ ہوتا ہے مگر اس میں خواتین کو شرکت کی اجازت نہ دینا متعصبانہ اور صنفی حوالے سے ناانصافی پر مبنی ہے۔

اب اس مقدمے میں متعلقہ عدالت کی خاتون جج کاتارینا اَیرٹ نے فیصلہ یہ سنایا ہے کہ اس مقابلے میں خواتین کی شرکت پر پابندی صنفی مساوات کے اصول کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، جو جرمنی کے بنیادی آئین کے بھی منافی ہے۔ اس لیے اب مقامی خواتین آئندہ نہ صرف اس روایتی مقابلے میں شرکت کر سکیں گی، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس مقابلے کا فاتح کوئی 'فشر کنگ‘ نہ ہو بلکہ کوئی 'فشر کوئین‘۔

اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ صدیوں پرانے اس سالانہ مقابلے کا فاتح کوئی 'فشر کنگ‘ نہ ہو بلکہ کوئی 'فشر کوئین‘تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow

مقابلے کی منتظم تنظیم کا موقف

مَیمِنگن میں اس سالانہ مقابلے کا اہتمام کرنے والی تنظیم کے ارکان کی تعداد تقریباﹰ ساڑھے چار ہزار ہے۔ اس تنظیم کی طرف سے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس مقابلے کو دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں شائقین اس شہر کا رخ کرتے ہیں اور یہ مقابلہ ایک ایسی صدیوں پرانی روایت ہے، جس میں خواتین کو شرکت کی اجازت دینے سے اس کا تشخص بدل جائے گا۔

اس پر عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس مقابلے کا تشخص بدلے یا نہ بدلے، خواتین کو اس میں شرکت سے دور رکھنا جرمنی کے بنیادی آئین کے تحت دی گئی صنفی مساوات کی ضمانت کے منافی ہے۔ اس تنظیم کو تاہم اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔

جرمن صوبے باویریا کے اس شہر میں اب تک اس مقابلے کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں مقامی باشندے شہر کے عین وسط سے گزرنے والی ندی میں اترتے ہیں اور 'فشر کنگ‘ کا اعزاز اس شہری کو ملتا ہے، جس نے سب سے بڑی اور وزنی مچھلی پکڑی ہو۔

م م / ا ا (ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں