کئی عرب مسلم رياستوں کے ساتھ تعلقات قائم ہيں، اسرائيلی وزير
عاصم سلیم
20 نومبر 2017
اسرائيلی کابينہ کے ايک وزير نے دعویٰ کيا ہے کہ ان کے ملک کے کئی عرب رياستوں کے ساتھ خفيہ تعلقات ہيں تاہم وہ ان تمام ممالک کے نام بيان نہيں کر سکتے۔
تصویر: picture-alliance/AA/S. Coskun
اشتہار
اسرائيلی وزير برائے توانائی يووال اشٹائنٹز نے کہا، ’’ہمارے متعدد عرب اور مسلم ملکوں کے ساتھ تعلقات ہيں، جن ميں سے کچھ خفيہ ہيں۔‘‘ انہوں نے يہ بيان اسرائيلی فوج کے ريڈيو اسٹيشن پر بات چيت ميں اتوار کی شب ديا۔ رياض کے ساتھ سفارتی تعلقات کے حوالے سے پوچھے گئے ايک سوال کے جواب ميں اسرائيلی وزير کا کہنا تھا کہ تعلقات کو پوشيدہ رکھنے کی درخواست عام طور پر ’دوسری طرف‘ سے آتی ہے اور انہيں اس درخواست کا خيال رکھنا پڑتا ہے۔
اسرائيلی فوج کے سربراہ نے ايک سعودی نيوز ويب سائٹ کو انٹرويو ديا تھا، جس سے ايسی قياس آرائيوں کو تقويت ملی کہ ان دو کٹر مخالف ملکوں کے مابين باہمی تعلقات ہيں اور باقاعدہ بات چيت نزديک ہے۔ يہ انٹرويو پچھلے ہفتے جمعرات کے روز شائع ہوا تھا۔ قبل ازيں اسرائيلی وزير اعظم بينجمن نيتن ياہو بھی عرب رياستوں کے ساتھ تعلقات کے بارے ميں عنديہ دے چکے ہيں جبکہ لبنانی شيعہ تنظيم حزب اللہ بھی يہ الزام عائد کر چکی ہے کہ رياض حکومت اس تنظيم پر حملہ کرنے کے ليے اسرائيل پر زور ڈال رہی ہے۔
اگرچہ بظاہر سعودی عرب اور اسرائيل کے مابين سفارتی سطح پر تعلقات نہيں ہيں تاہم يہ دونوں ممالک ايران کو مشترکہ ’دشمن‘ کے طور پر ديکھتے ہيں اور دونوں ہی يہ چاہتے ہيں کہ مشرق وسطیٰ ميں بڑھتے ہوئے ايران کے اثر و رسوخ کو کسی بھی صورت محدود کيا جائے۔ اس ضمن ميں وزير اعظم نيتن ياہو بيشتر مقامات پر بڑے فخر کے ساتھ کہہ چکے ہيں کہ انتہا پسند اسلام کے پھيلاؤ کے خلاف ان کا ملک کئی اعتدال پسند عرب رياستوں کے ہمراہ کھڑا ہے۔ پچھلے ہفتے اسرائيلی پارليمان سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ يہ قربت اور مکالمت خطے کی سلامتی اور امن کے ليے لازمی ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب اور ايران کے مابين ان دنوں کشيدگی کی تازہ لہر جاری ہے۔
’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
غزہ پٹی ميں دو نوجوان لڑکياں ’انسٹاگرام‘ کی مدد سے دنيا کو اپنے علاقے کا ايک ايسا رخ دکھانے کی کوششوں ميں ہيں، جو اس علاقے کے حوالے سے پائے جانے والے عام تاثرات کے بالکل مختلف ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
تصاوير بولتی ہيں
چھبيس سالہ خولود نصر کہتی ہيں، ’’ميں انسٹاگرام کو ايک کھڑکی کے طور پر ديکھتی ہوں۔‘‘ گلابی رنگ کا حجاب پہنے ہوئے يہ باہمت نوجوان لڑکی، اپنے علاقے کا ايک مختلف پہلو اجاگر کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے ليے نصر نے سوشل ميڈيا کا سہارا ليا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’دنيا ميری دسترس ميں‘
نصر کی اکيس سالہ ساتھی فاطمہ مسابہ بھی کچھ ايسے ہی خيالات رکھتی ہيں۔ مسابہ کے مطابق انٹرنيٹ کھولتے ہی پوری کی پوری دنيا کے لوگ ان کی دسترس ميں ہوتے ہيں۔ مجموعی طور پر ان دونوں لڑکيوں کے ’اسٹاگرام‘ پر قريب ايک لاکھ فالوئرز ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
بندشوں کا شکار غزہ
غزہ پٹی ميں لگ بھگ دو ملين لوگ آباد ہيں۔ يہ علاقہ شمال اور مشرق کی جانب اسرائيل کے ساتھ لگتا ہے، جنوب ميں مصر کے ساتھ اور مغرب ميں بحيرہ روم پڑتا ہے۔ غزہ کے شہريوں کو بلا اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ نصر اور مسابہ قريب ايک دہائی سے غزہ سے باہر نہيں نکليں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ ميں صرف جنگ نہيں، اور بھی کچھ ہے‘
خولود نصر کا کہنا ہے، ’’جنگ غزہ کا حصہ ضرور ہے، ليکن يہاں صرف جنگ ہی نہيں۔ ميں يہ دکھانا چاہتی ہوں کہ دنيا کے کسی بھی اور ملک کی طرح يہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘ اس کے بقول اب امريکا ہی کی مثال لے ليں، وہاں غربت بھی ہے اور دلکش مناظر بھی۔ وہ کہتی ہيں کہ انسٹاگرام پر تصاوير کے ذريعے وہ لوگوں کو دکھانا چاہتی ہيں کہ مقامی لوگ کس طرح اپنی زندگياں گزارتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سوشل ميڈيا کا مثبت کردار
فلسطينی سوشل ميڈيا کلب کے سربراہ علی بخت کے مطابق غزہ ميں رہائش پذير تقريباً نصف لوگ فيس بک پر موجود ہيں ليکن اس کے مقابلے ميں ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر سرگرم لوگوں کی تعداد کم ہے۔ ان کے بقول سالہا سال سے اسرائيلی بندشوں کی وجہ سے غزہ کے شہری اپنی آواز سنانے اور اظہار خيال کے ليے سوشل ميڈيا کو بروئے کار لاتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ کا تاثر بدلنا ہے‘
فاطمہ مسابہ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ساکھ بدلنا چاہتی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ميرے نزديک سب سے اہم يہ ہے کہ بندشوں، جنگ اور تباہی کے علاوہ ہم يہاں کی خوبصورتی کو بھی دکھائيں۔‘‘ مسابہ اور نصر کی زيادہ تر تصاوير ميں وہ خود بھی دکھائی ديتی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
آمدنی بھی، سروس بھی
مسابہ کے ليے ان کا انسٹاگرام آمدنی کا ذريعہ بھی ہے۔ وہ ماہانہ بنيادوں پر ڈھائی سو يورو کے قريب کما ليتی ہيں۔ ان کے پيج پر اشتہارات سے انہيں يہ رقم ملتی ہے۔ ايک ايسے خطے ميں جہاں نوجوانوں ميں بے روزگاری کی شرح ساٹھ فيصد سے بھی زيادہ ہے، وہاں مسابہ نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔