سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نیوزی لینڈ کے ایک جنوبی جزیرے میں انسانی جسم کے حجم جتنی پینگوئن کا ڈھانچا ملا ہے۔ یہ ڈھانچا 1.6 میٹر لمبا ہے اور اس کا وزن 80 کلو گرام ہے۔
تصویر: Canterbury Museum
اشتہار
ریسرچرسز کا کہنا ہے کہ یہ ڈھانچا جدید دور کے یورپ میں پائی جانی والی پینگوئن سے چار گنا وزنی اور چالیس سینٹی میٹر لمبا ہے۔ اس پینگوئن کی باقیات 2018ء میں ایک ماہر امراضیات نے دریافت کی تھیں۔ جس کے بعد کینٹر بری عجائب گھر اور فرینکفرٹ کے سینکینبرگ نیچرل ہسٹری میوزیم نے اس پرندے کی باقیات کا جائزہ لیا اور یہ اندازہ لگایا کہ اس ڈھانچے کا تعلق پینگوئین کی کراسویلیا وائیپارینسز نسل سے ہے۔
یہ پینگوئن 56 سے 66 ملین سال پہلے نیوزی لینڈ کے ساحل پر پائی جاتے تھے۔ پینگوئن کی اس قسم سے ملتی جلتی ایک نسل کی باقیات انٹارٹیکا کی ایک وادی میں سن 2000ء میں ملی تھیں۔ کینٹربری عجائب گھر کی ایک محقق ونیسا ڈی پیٹری کا کہنا ہے کہ نیوزی لینڈ کے اس ساحلی علاقے سے پینگوئین کا یہ دوسراڈھانچا ملا ہے۔ ان کا کہنا ہے،'' اس ڈھانچے کا ملنا ہمارے اس نظریے کو تقویت دیتا ہے کہ پینگوئینز ارتقائی عمل کے آغاز میں بہت بڑی جسامت کی حامل تھے۔‘‘ سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بڑی جسامت کی پینگوئین کی ہلاکتوں کی ایک وجہ وہیل مچھلیوں کے ہاتھوں ان کا شکار کرنا ہو گا۔
گزشتہ ہفتے کینٹر بری عجائب گھر نے ایک ایسے طوطے کی 19 ملین سال پرانی باقیات ملنے کا اعلان کیا تھا جو ایک میٹر لبما تھا۔
یک زوجگی کے قائل چھ پرندے
پینگوئن کی رَوک ہَوپر نامی نسل اپنے جیون ساتھی کے ساتھ بہت زیادہ جذباتی لگاؤ رکھتی ہے۔ دیگر بہت سے پرندے بھی ’یک زوجگی‘ کے قائل ہیں لیکن بہت سے واقعات میں یہ امر انہیں دوسرے پرندوں کے ساتھ ’جسنی عمل‘سے نہیں روک سکتا۔
تصویر: Imago
تمام پینگوئن ایک جیسے نہیں
یہ معلوم نہیں کہ گالاپاگوس جزائر کے پینگوئن ایک دوسرے کے ساتھ کتنے وفادار ہوتے ہیں۔ تاہم ہم جانتے ہیں کہ ان پرندوں کی رَوک ہَوپر نامی نسل یک زوجگی کی قائل ہے۔ سائنسدانوں نے مائیکرو ٹرانسمٹرز کے ساتھ ان کا مشاہدہ کیا ہے۔ اگر یہ اپنے ساتھیوں سے ہزاروں میل دور بھی چلے جائیں، تو بھی یہ ’لو برڈز‘ ایک دوسرے کو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ جدائی کے عالم میں بھی یہ پرندے اپنے پارٹنر سے بے وفائی نہیں کرتے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPHOTO
نَر پرندہ صبح سویرے مادہ کی تلاش میں
تقریباﹰ نوّے فیصد تک تمام پرندے سماجی طور پر ’یک زوجگی‘ کے قائل ہوتے ہیں۔ تاہم کچھ دیگر کے ساتھ بھی ’جنسی عمل‘ کو غلط نہیں سمجھتے۔ مثال کے طور پر ’بلیو ٹِٹ‘ نامی مادہ پرندہ صبح سویرے ہی اپنے گھونسلے سے نکل جاتی ہے، جب کہ اس کا نر ساتھی ابھی سو رہا ہوتا ہے۔ تاہم اگر ہمسائے میں کوئی اور نَر پرندہ اُس وقت جاگ رہا ہو اور گنگنا رہا ہو تو ان دونوں کے مابین عارضی تعلق قائم ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images GmbH
محبت صرف ایک بار، مرنے تک
ہنس ایک ایسا پرندہ ہے، جو عمر بھر کے تعلق پر یقین رکھتا ہے۔ مادہ ہنس اپنے اپنے گھونسلوں کا بھرپور طاقت سے دفاع کرتی ہیں۔ تاہم محبت اور وفاداری کی علامت سمجھے جانے والے یہ پرندے بھی اکثر ’ناجائز تعلقات‘ استوار کر لیتے ہیں۔ یہ ’بے وفائی‘ ان پرندوں میں جینیاتی تنوع کے لیے اہم سمجھی جاتی ہے۔ مادہ ہنس کا ایک کام یہ یقینی بنانا بھی ہوتا ہے کہ اس کے تمام انڈے محفوظ رہیں۔
تصویر: Otto Durst/Fotolia
پرندوں میں بھی ’صنفی امتیاز‘
ہنس دراصل مرغابی کی نسل کا پرندہ ہے۔ تقریباﹰ تمام ہنس سماجی طور پر ’یک زوجگی‘ کے قائل ہوتے ہیں۔ تاہم مرغابی کے برعکس نَر ہنس گھونسلہ بنانے میں اپنی مادہ ساتھی کی مدد نہیں کرتے۔ یہ کام صرف مادہ ہنس کا ہی ہوتا ہے۔ لیکن بچوں کی حفاظت میں نَر اور مادہ دونوں ہی کردار ادا کرتے ہیں، چاہے یہ بچے جینیاتی شناخت کے لحاظ سے متعلقہ نَر ہنس کے اپنے نہ بھی ہوں۔
تصویر: cc-by-sa/Kolago
طوطوں میں بے وفائی
طوطے زیادہ تر بڑے بڑے گروہوں میں رہتے ہیں، کیونکہ اس طرح وہ ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ان گروہوں میں طوطے اپنے لیے زندگی بھر کے لیے ’جیون ساتھی‘ بھی چن لیتے ہیں۔ لیکن ان گروہوں کی وجہ سے طوطوں میں میں اپنے’شریک حیات‘ سے ہٹ کر کسی دوسرے پرندے کے ساتھ ’ناجائز تعلقات‘ قائم کر لینے کے امکانات بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/H.Lange
نَر سارس کا ’مردانہ کردار‘
ایک خاص موسم میں نَر سارس اپنی مادہ کے مقابلے میں کئی دن پہلے ہی اپنے روایتی گھونسلے میں پہنچ جاتا ہے۔ اس دوران نَر گھونسلے کی زیبائش کا کام سر انجام دیتا ہے۔ جب یہ تیاریاں مکمل ہو جاتی ہیں تو مادہ سارس بھی وہاں پہنچ جاتی ہے۔ چونکہ سارس بڑے بڑے گروہوں میں نہیں رہتے، اس لیے ان میں ’غیر ازدواجی تعلقات‘ قائم کرنے کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں۔