کائناتی شعاعوں میں ذرات پر تحقیق میں نیا سنگ میل
20 مئی 2011امریکی خلابازوں نے ایلفا مقناطیسی سپیکٹرو میٹر پارٹیکل ڈیٹیکٹر یا AMS نامی یہ آلہ متعدد خلائی کرینوں کی مدد سے انٹر نیشنل اسپیس اسٹیشن پر نصب کیا۔ اے ایم ایس نامی اس خلائی مشین کا وزن ساڑھے سات ٹن یا 6800 کلو گرام بنتا ہے۔
اسے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی بیرونی دھاتی سطح تک پہنچانے کے لیے اینڈیور کے کارگو روم سے کرینوں کے طور پر کام کرنے والے روبوٹس کی مدد سے اس کی تنصیب کی جگہ تک پہنچایا گیا۔ انتہائی خاص قسم کا یہ سپیکٹرو میٹر پارٹیکل ڈیٹیکٹر اتنے ہی طویل عرصے تک کام کرتا رہے گا جتنی کہ خلاء میں بین الاقوامی اسٹیشن ISS کی عمر ہو گی۔
امریکہ میں کیپ کینیورل سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اپنی تنصیب کے چند ہی گھنٹوں بعد AMS نامی اس جدید ترین آلے نے کائناتی شعاعوں میں پائے جانے والے بہت زیادہ توانائی کے حامل ذرات سے متعلق بے تحاشا معلومات زمین پر بھیجنا شروع کر دیں۔
خلائی ذرات کی نشاندہی کرنے والے اے ایم ایس نامی اس ڈیٹیکٹر کی کامیاب تنصیب اور اس کی طرف سے بہت بڑی مقدار میں ڈیٹا کی فراہمی کا عمل شروع ہونے کے بعد اس منصوبے پر کام کرنے والی ماہرین کی ٹیم کے سربراہ سیموئل ٹِنگ نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ انتہائی خوش ہیں۔
امریکہ میں میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی MIT سے منسلک اس نوبل انعام یافتہ سائنسدان کے مطابق یہ خلائی سپیکٹرو میٹر اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وہ خلاء میں ہر جگہ سے گزرنے والی انتہائی زیادہ توانائی کی حامل کائناتی شعاعوں کا جائزہ لیتے ہوئے کائنات میںDark Matter کہلانے والے مادے کے آثار کو تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
اس سلسلے میں Samuel Ting نے اب تک پوری طرح دریافت نہ کیے گئے جن بڑے کائناتی حقائق کا ذکر کیا، ان میں ’ڈارک مَیٹر‘ اور ’اینٹی مَیٹر‘ یا ’مادے کی ضد‘ بھی شامل ہیں، جن کا روایتی خلائی دوربینی تنصیبات کے ذریعے پتہ نہیں چلایا جا سکتا۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امتیاز احمد