امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی فوجی دستے افغانستان میں شورش کے خاتمے تک جنگ جاری رکھیں گے۔ تاہم ٹرمپ نے واضح طور پر یہ نہیں بتایا کہ مزید کتنی تعداد میں امریکی فوجی افغانستان روانہ کیے جائیں گے۔
اشتہار
افغانستان سے متعلق نئی امریکی حکمت عملی پر بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پیر اکیس اگست کی شام ایک تقریر میں کہا کہ امریکا اب کسی خاص مدت کے بجائے پاکستان، افغانستان اور دیگر کے ساتھ اپنی معاونت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والے نتائج اور اِن ممالک کے امریکا کے ساتھ تعاون سے مشروط کرے گا۔
ٹرمپ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک علاقائی حکمت عملی ہو گی جس میں دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے کردار کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔ ٹرمپ نے اس ضمن میں پاکستان پر عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے پر زور بھی دیا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا افغان حکومت کی مدد کرتا رہے گا لیکن یہ امداد ہمیشہ کے لیے نہیں ہے اور یہ کہ کابل کو امریکی امداد کو ’بلینک چیک‘ نہیں سمجھنا چاہیے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اب افغانستان میں امریکی فوجی دستوں کی کارروائیوں اور تعداد کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔ تاہم ساتھ ہی ٹرمپ نے اشارتاﹰ کہا کہ وہ پینٹاگون کی چار ہزار مزید فوجی افغانستان بھیجنے کی تجویز کو قبول کریں گے۔
ماضی میں افغانستان سے امریکی افواج فوری طور پر واپس بلانے کے اپنے بیانات کے برخلاف ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یک دم امریکی فوجی افغانستان سے نکال لینے سے وہاں خلا پیدا ہو جائے گا اور دہشت گردوں کو دوبارہ پنپنے کا موقع ملے گا۔
ٹرمپ نے برسر اقتدار آنے کے بعد سابق جرنیل اور موجودہ وزیردفاع جم میٹس کو افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کے حوالے سے مکمل اختیارات سونپے تھے، تاہم کئی ماہ گزرنے کے باوجود افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد آٹھ ہزار چار سو اور نیٹو فوجیوں کی تعداد پانچ ہزار ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ واشنگٹن حکومت اس ضمن میں نیٹو اتحادیوں اور عالمی رہنماؤں سے اپنی نئی حکمت عملی کی حمایت کے لیے بات کرے گی اور وہ پر یقین ہیں کہ امریکا کو یہ حمایت ملے گی۔
افغان دارالحکومت کابل میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے صدر ٹرمپ کی تقریر کو فرسودہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ مجاہد کا کہنا ہے کہ نئی امریکی پالیسی غیر واضح ہے۔ دوسری جانب افغان حکومت نے امریکی صدر کی تقریر کا خیر مقدم کیا ہے۔ واشنگٹن میں تعینات افغان سفیر حمداللہ محب نے ٹیلیفون پر ایک انٹرویو میں کہا،’’ ہمیں وہی سننے کو ملا جس کی ہمیں ضرورت تھی۔‘‘
اُدھر خبر رساں ادارے اے پی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق گزشتہ روز ٹرمپ کی تقریر میں پاکستان کے لیے سخت الفاظ کو افغانستان میں سراہا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں پاکستان پر طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا عائد الزام کرتے ہوئے کہا تھا کہ پڑوسی ملک میں یہی دہشت گرد امریکی فوجیوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔
پاکستان میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر صرف پاکستان کو مجرم قرار دے کر تنہا کیا گیا تو اس سے وہاں روس، چین اور ایران کا اثرورسوخ بڑھ سکتا ہے۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے بھی امریکی صدر کی افغانستان میں نئی عسکری حکمت حملی کا خیر مقدم کیا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے کہا کہ نیٹو کے اتحادیوں اور شراکت کاروں نے پہلے سے ہی افغانستان میں اپنی موجودگی بڑھانے پر اتفاق کر رکھا ہے تاکہ اس ملک کو دوبارہ دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دیا جائے۔
افغانستان: کب کیا ہوا ؟
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا کے چالیس سے زائد ممالک افغانستان میں موجود رہے۔ بم دھماکے آج بھی اس ملک میں معمول کی بات ہیں۔ نیٹو افواج کا جنگی مشن اختتام پذیر ہو گیا ہے لیکن ان کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ
گیارہ ستمبر 2001ء کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے مجموعی طور پر چار مسافر طیارے اغوا کیے۔ دو کے ذریعے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا۔ ایک تیسرے جہاز کے ساتھ امریکی پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا جبکہ چوتھا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ ان حملوں میں کل تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آپریشن اینڈیورنگ فریڈم
ان حملوں نے امریکی حکومت کو افغانستان پر حملہ آور ہونے کا جواز فراہم کیا اور بش حکومت نے سات اکتوبر کو اسامہ بن لادن کے ممکنہ ٹھکانوں پر بمباری کا آغاز کیا۔ تیرہ نومبر 2001ء کو دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا گیا۔ طالبان نے پاک افغان سرحدی علاقوں میں پسپائی اختیار کر لی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پہلی بون کانفرنس
طالبان کے زوال کے بعد اقوام متحدہ کی چھتری تلے افغانستان پر چار بڑے نسلی گروپوں کے رہنما بون کے قریبی مقام پیٹرزبرگ کی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ شرکاء نے جمہوریت کے نفاذ کے لیے پانچ دسمبر 2001ء کو صدر حامد کرزئی کے تحت عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق کیا۔
تصویر: Getty Images
جرمن افواج کی روانگی
بائیس دسمبر 2001ء کو جرمن پارلیمان کی اکثریت نے اقوام متحدہ کے ’مشن فریڈم‘ میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔ انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کو مقامی حکومت کی تعمیر نو میں مدد اور سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کا کام سونپا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پہلے فوجی کی ہلاکت
چھ مارچ 2002ء کو ایک دو طرفہ لڑائی میں پہلا جرمن فوجی ہلاک ہوا۔ اس کے بعد جرمن فوجیوں کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ سات جون 2003ء کو کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس میں چار فوجی ہلاک اور دیگر انتیس زخمی ہوئے۔ جرمن فوجیوں پر یہ پہلا خودکش حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیا آئین
جنوری 2004ء کو افغانستان کے نئے جمہوری آئین کی منظوری دی گئی۔ 502 مندوبین نے صدارتی نظام کے تحت ’اسلامی جمہوریہ افغانستان‘ میں انتخابات کی راہ ہموار کی۔ نو اکتوبر 2004ء کو حامد کرزئی نے فتح کا جشن منایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
برلن کانفرنس
اکتیس مارچ 2004ء کو برلن کانفرنس کے دوران بین الاقوامی برادری نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 8.2 ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ جرمنی نے 80 ملین یورو دینے کا وعدہ کیا۔ اس کانفرنس میں منشیات کے خلاف جنگ اور ایساف دستوں کی مضبوطی کا اعلان بھی کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
لندن کانفرنس
اکتیس جنوری 2006ء کو لندن کانفرنس میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان کے لیے پانچ سالہ منصوبے اور 10.5 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد سکیورٹی کے نام پر متعدد کانفرنسوں کا انعقاد ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
قندوز کا فضائی حملہ
چار ستمبر 2009ء کو طالبان نے تیل کے بھرے دو ٹینکروں کو اغوا کیا۔ جرمن کرنل گیورگ کلائن نے فضائی حملے کے احکامات جاری کر دیے، جس کے نتیجے میں تقریبا ایک سو عام شہری مارے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن فوجیوں کا یہ سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔ شدید تنقید کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن صدر کا استعفیٰ
اکتیس مئی 2010ء کو افغانستان میں جرمن فوجیوں کے ساتھ ملاقات کے بعد واپسی پر جرمن صدر ہورسٹ کوہلر نے ایک متنازعہ انٹرویو دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جنگ جرمن اقتصادی مفادات کی وجہ سے لڑی جا رہی ہے۔ اس کے بعد ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور انہیں مستعفی ہونا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کابل کا سربراہی اجلاس
انیس جولائی 2010ء کو سکیورٹی کے سخت انتظامات کے تحت کابل میں نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ افغانستان کے غیر مستحکم حالات کے باوجود سن 2014ء کے بعد غیر ملکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارلیمانی انتخابات
اٹھارہ ستمبر 2010ء کو افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ کوئی بھی امیدوار واضح برتری حاصل نہ کر سکا اور فیصلہ صدر کرزئی کے حق میں ہوا۔
تصویر: picture alliance/dpa
اسامہ بن لادن کی ہلاکت
دو مئی 2011ء کو امریکا کی اسپیشل فورسز نے پاکستانی شہر ابیٹ آباد میں حملہ کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ امریکی صدر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس خفیہ آپریشن کی براہ راست نگرانی کرتے رہے۔ ہزاروں امریکیوں نے بن لادن کی ہلاکت کا جشن منایا۔
تصویر: The White House/Pete Souza/Getty Images
دوسری بون کانفرنس
جنگ کے دس برس بعد پانچ دسمبر 2011ء کو ایک دوسری بین لاقوامی بون کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں سن 2024ء تک افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس کے بدلے میں صدر کرزئی نے اصلاحات کرنے، کرپشن کے خاتمے اور جمہوریت کے استحکام جیسے وعدے کیے۔
تصویر: Getty Images
ذمہ داریوں کی منتقلی
اٹھارہ جون 2013ء کو صدر حامد کرزئی نے ملک بھر میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دن کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس نے اس اعلان کی خوشیوں ختم کر کے رکھ دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیٹو جنگی مشن کا اختتام
افغانستان میں نیٹو کے جنگی مشن کا اختتام ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی برادری مستقبل میں بھی افغانستان کو اربوں ڈالر بطور امداد فراہم کرے گی۔ لیکن افغانستان کے لیے آزادی اور خود مختاری کی طرف جانے والا یہ راستہ کانٹوں سے بھرپور ہے۔