کابل اور اسلام آباد تعلقات میں بہتری کے لیے ورکنگ گروپ
11 جون 2017بداعتمادی کے متعدد ادوار اور سرحد پار دہشت گردی کے پے در پے الزامات کے تناظر میں صدر غنی کے اس بیان کو ایک مثبت پیشرفت کے طور پر دیکها جا رہا ہے۔ غنی نے پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں گزشتہ ہفتے ایک غیر اعلانیہ ملاقات کے حوالے سے اپنی تازہ ’ٹوئیٹس‘ میں لکها ہے کہ دونوں ممالک نے ایک ورکنگ گروپ کی تشکیل پر اتفاق کیا ہے، جو مربوط مسائل کے لیے حل تلاش کرے گا۔ اس گروپ کا پہلا اجلاس کابل میں منعقد ہو گا۔
سال 2014ء میں اقتدار سنبهالنے کے بعد صدر غنی نے ماضی کی تلخیوں کے باوجود ایک جرأت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے اپنے پہلے بیرونی دورے پر اسلام آباد کے ایوان وزیر اعظم اور سفارتی پروٹوکول کے برعکس راولپنڈی میں پاک فوج کے صدر دفاتر کا دورہ کیا تها۔ غنی نے گزشتہ ہفتے کابل منعقدہ ’کابل پروسس‘ نامی ایک بین الاقوامی نشست میں خطاب کرتے ہوئے اپنے اس دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے مشکل حالات میں پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑهایا مگر اسے مسترد کردیا گیا‘۔ غنی کا اشارہ ان کی اس ملاقات کے کچھ مہینوں بعد کابل میں ہونے والے خونریز حملوں کی جانب تھا، جن کا ذمہ دار طالبان کے حقانی نیٹ ورک کو، جسے پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی کے قریب خیال کیا جاتا ہے، ٹھہرایا گیا تها۔
نواز شریف کے ساتھ آستانہ میں 45 منٹ تک ہونے والی تازہ ملاقات بابت اظہار خیال کرتے ہوئے افغان تجزیہ نگار محمد عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کابل حکومت پر یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان کی حمایت کے بغیر طالبان سے امن مذاکرات یا پهر افغان تنازعے کا کوئی دیرپا حل آسان نہیں:’’یہ (افغان قیادت) اس بات کو بخوبی سمجھتی ہے کہ پاکستان اس مسئلے کا ایک اہم فریق ہے اور پاکستان کی سیاسی قیادت کو بهی اچھی طرح سے علم ہے کہ افغانستان میں جاری خونریزی اور بدامنی کے اثرات وہاں تک محدود نہیں ہیں، دونوں کے لیے بہتر ہے کہ الزام تراشی میں مزید وقت ضائع کیے بغیر اتفاق رائے اور خوش اسلوبی سے مسائل کا حل تلاش کریں۔‘‘
شنگهائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر افغان صدر اور پاکستانی وزیر اعظم کی غیر رسمی نوعیت کی ملاقات ایک ایسے موقع پر ہوئی، جب روس اور چین کی قیادت میں تشکیل پانے والی اس تنظیم نے بهارت اور پاکستان کو بهی رکنیت دے دی ہے۔ اس طرح افغانستان کے لیے پاکستان کی اہميت اور بھی زياده ہوگئی ہے۔ افغان صدر نے اپنی ٹوئٹ میں لکها ہے کہ دو طرفہ مسائل اور قیام امن کے لیے چار فریقی کواڈریٹ کوآپریشن گروپ، جس میں چین اور امریکا فریق ہیں، کے استعمال پر بهی اتفاق ہوا ہے۔
واضح رہے کہ دو ہفتے قبل کابل میں اس شہر کی حالیہ تاریخ کے خونریز ترین دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری مبینہ طور پر آئی ایس آئی اور حقانی نیٹ ورک پر ڈالی گئی تھی۔ سفارتی علاقے میں جمعرات 31 مئی کو ہوئے اس ٹرک حملے میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تهے۔ اس حملے کے بعد افغان کرکٹ ٹيم نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ سيريز کو منسوخ کر ديا تھا۔
پاکستان ان الزامات کو مسترد کر چکا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے آستانہ میں ہوئی ملاقات کے دوران کابل میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کی اور دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لانے کا یقین دلایا۔