کابل اور طالبان کے مابین مذاکرات کے لیے روسی پلیٹ فارم مسترد
شادی خان سیف، کابل
19 جنوری 2018
امریکا نے طالبان اور کابل حکومت کے درمیان امن مذاکرات کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرنے کی روسی پیش کش کو مسترد کر دیا ہے۔
اشتہار
بدھ کے دن ماسکو میں وزارت خارجه کی جانب سے جاری کرده ایک اعلامیے میں کہا گیا تها که روس آماده ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براه راست بات چیت کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرے۔ یه بات زور دے کر کہی گئی تهی که روس افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے براه راست مذاکرات کے حق میں ہے،"افغانستان میں بین الاقوامی استحکام کی کوششوں کا تجربه طاقت کے حل کو غلط ثابت کرتا ہے۔"
جمعرات کو کابل کے امریکی سفارتخانے میں اپنی اولین پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نئے سفیر جون بیس نے کہا که کوئی بهی بیرونی رائے افغانستان میں مسلط نہیں کی جاسکتی۔ افغانستان میں قیام امن، پائیدار جمہوریت اور ترقی کے حوالے سے اپنے لائحه عمل کا احاطه کرتے ہوئے سفير جون بيس نے کہا که افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے فیصله خود افغان عوام کریں گے ناکه کسی بیرونی ملک کی حکومت یا دہشت گرد یا مجرم گروه، "چاہے ہم امن اور مصالحت کی بات کر رہے ہوں یا اقتصادی ترقی کی یا اچهی حکومتی عملداری اور افغان عوام کو حکومت کی جانب سے فراہم کرده خدمات اور تعاون کے معیار کی بات کر رہے ہوں، ان تمام معاملات کا اختیار افغانوں کے پاس ہونا چاهیے۔"
دوسری جانب ماسکو حکومت نے وزارت خارجه کی جانب سے جاری کرده اعلامیے میں واضح کیا ہے که وزیر خارجه سیرگئی لاوروف اقوام متحده کی سلامتی کونسل میں افغانستان بابت اہم اجلاس میں شرکت کریں گے. یاد رہے که رواں ہفتے سلامتی کونسل کے تمام پندرہ مستقل اور غیر مستقل ممالک کے سفیروں نے کابل کا دوره کیا تها، جس دوران وه صدر محمد اشرف غنی اور دیگر اہم حکام سے بھی ملے تھے۔
افغانستان میں حکومتی 'دسولی عالی شوریٰ یا شوریٰ اعلیٰ صلح' کے مشیر محمد اسماعیل قاسم یار کے بقول اس بات میں کوئی شک و شبه نہیں که روس اور امریکا بین الاقوامی سطح پر کئی محازوں پر ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ روس کی جانب سے براه راست مذاکرات کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرنے کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے محتاط انداز میں اس کی پذیرائی کی، "یه ہماری ان کوششوں کے مطابق ہے، جو خطے کی سطح پر بہتر تعلقات اور قیام امن سے متعلق ہیں۔ افغانستان کی یه خواہش ہے که خطے کے تمام ممالک اور بین الاقوامی قوتیں اپنے مفادات اور کوششیں افغانستان میں قیام امن سے جوڑیں ناکه یہاں اپنی رقابت اور جنگ سے۔ "
ياد رہے که کئی مقامی افغان حکام کئی بار الزام عائد کرچکے ہيں که پاکستان اور ايران کے ساتھ ساتھ روس بهی طالبان کی پشت پناہی کر رہا ہے. اسلام آباد، تہران اور ماسکو ان الزامات کو رد کرچکے ہيں۔
علاقائی سطح پر افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجها جاتا ہے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیه افغان اور جنوب ایشیائی پالیسی میں پاکستان کو خاصا ہدف تنقید بنایا گیا ہے اور اس کے برعکس بهارت اور چین کو افغانستان میں امن اور اقتصادی ترقی کے لیے حوالے سے اہمیت دی گئی ہے۔
حال ہی میں ترکی کے شہر استنبول میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے مابین غیر رسمی ملاقات کا ایک دور منعقد کیا گیا تها تاہم افغان طالبان کے ترجمان ذبیح الله مجاہد نے اپنے کسی بهی نمائندے کی جانب سے اس سیشن میں شرکت کو مسترد کر دیا ہے ۔ قیام امن کے لیے افغان حکومت کی کوششوں میں اگلا اہم قدم آئنده ماه افغانستان منعقده 'کابل پروسس' کی بین الاقوامی بیٹهک ہے۔
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔