کابل اور واشنگٹن ماسکو مذاکرات میں شریک کیوں نہیں ہوں گے؟
25 اگست 2018
ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگل مین یہ بتاتے ہیں کہ کابل اور واشنگٹن آئندہ ماہ ماسکو میں ہونے والے امن مذاکرات میں کیوں شرکت نہیں کر رہے اور اس کے نقصانات کیا ہوں گے؟
اشتہار
ڈی ڈبلیو: طالبان کے ساتھ بار بار امن مذاکرات کی کوششوں کے باوجود امریکا اور افغانستان روسی قیادت میں ہونے والے امن مذاکرات میں شرکت کے خواہاں کیوں نہیں ہیں؟
مائیکل کوگل مین: دونوں ممالک ہی ماسکو مذاکرات میں شرکت نہ کر کے ایک بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ افغان حکومت کا فیصلہ خاص طور پر ناقابل یقین اور عجیب ہے۔ اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے لیے امریکا کے پاس تو ایک عذر ہے لیکن کابل تو سفارتی کشیدگی کو بطور عذر پیش نہیں کر سکتا۔
ماسکو کے ساتھ کابل کے تعلقات میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ روس نے افغانستان میں اپنے کردار کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ حتمی بات یہ ہے کہ دونوں ممالک ہی غلط کر رہے ہیں۔ اگر آپ جنگ ختم کرنے اور امن عمل شروع کرنے کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو آپ کو ہر موقع کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ایسے مواقع پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا ناقابل فہم ہے۔
ڈی ڈبلیو: طالبان کی طرف سے ماسکو کانفرنس میں شرکت کیا اس طرف اشارہ ہے کہ روس کا طالبان عسکریت پسندوں پر اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے؟
مائیکل کوگل مین: جی ہاں، چین سے ازبکستان اور کئی دیگر ممالک کی طرح روس بھی ان ممالک میں شامل ہے، جو فائدہ اٹھانے کے لیے طالبان سے گہرے روابط قائم کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میرے خیال سے یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ طالبان کو مذاکرات پر راضی کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ممالک کی کوششوں کی ضرورت ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ روابط کرنے والے زیادہ تر ممالک کے ارادے اور مفادات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر ایران اور روس شاید سفارتی تعلقات کے علاوہ طالبان کو فوجی حمایت فراہم کرنے کے بھی خواہش مند ہوں۔
ڈی ڈبلیو: طالبان نمائندوں نے قطر میں امریکی نمائندوں سے ملاقات کی اور اب روسی حکام سے مل رہے ہیں۔ لیکن وہ افغان حکومت سے مذاکرات نہیں کرتے۔ کیا اس طرح اشرف غنی حکومت کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے؟
مائیکل کوگل مین:جی ہاں، میرے خیال میں طالبان جلد ایسا کچھ کریں گے بھی نہیں کیوں کہ وہ افغان حکومت کو امریکا کی کٹھ پتلی حکومت سمجھتے ہیں۔ شاید یہ صورتحال آئندہ برس تبدیل ہو جائے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ صدارتی الیکشن نئی قیادت لے کر آئیں گے۔ یہ قیادت شاید انتخابات کا نتیجہ ہو نہ کہ امریکی مذاکرات کا، جیسا کہ امریکا نے افغان حکومت کے تشکیل کے لیے سن دو ہزار چودہ میں کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ طالبان آئندہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے راضی ہو جائیں۔
ڈی ڈبلیو: کیا حالیہ پیش رفتوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آخر کار افغانستان میں امن حاصل کیا جا سکتا ہے؟
جنگ شروع ہونے سے لے کر اب تک امن عمل کے لیے سب سے زیادہ کوششیں اب کی جا رہی ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ حال ہی میں طالبان پہلی مرتبہ عارضی جنگ بندی کے لیے متفق ہوئے تھے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ کچھ طالبان قوتیں امن کے حق میں ہیں چاہے یہ طویل عرصے کے لیے نہیں تھا۔ ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ کابل حکومت اور امریکا میں یہ طے پا گیا ہے کہ واشنگٹن طالبان سے براہ راست مذاکرات کر سکتا ہے۔ یہ طالبان کی ایک دیرینہ شرط تھی۔
ان دلائل کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ بہت جلد امن ہو جائے گا اور کسی بھی وقت حالات مستحکم ہو جائیں گے۔ ہم شاید ایک امن عمل شروع کرنے کے قریب ہیں لیکن اس کے اختتام تک ایک طویل راستہ ہے۔ آخر کار طالبان کے پاس لڑائی بند کرنے کا کوئی خاص جواز نہیں ہے کیوں کہ وہ میدان جنگ میں اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ طالبان کو ہتھیار پھینکنے پر تیار کرنے کے لیے بہت بڑی پیش کش کرنا ہو گی۔
سوال یہ ہے کہ افغان، امریکی اور دیگر حصہ دار طالبان کو یہ رعایتیں دینے کے لیے تیار ہیں، جن میں یہ بھی شامل ہو سکتا ہے کہ طالبان کے زیر کنٹرول علاقے مستقل طور پر انہیں فراہم کر دیے جائیں۔
مائیکل کوگل مین امریکا میں ولسن سینٹر کے شعبہ جنوبی ایشیا کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔
انٹرویو: مسعود سیف اللہ / ا ا / ص ح
افغانستان: کب کیا ہوا ؟
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا کے چالیس سے زائد ممالک افغانستان میں موجود رہے۔ بم دھماکے آج بھی اس ملک میں معمول کی بات ہیں۔ نیٹو افواج کا جنگی مشن اختتام پذیر ہو گیا ہے لیکن ان کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ
گیارہ ستمبر 2001ء کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے مجموعی طور پر چار مسافر طیارے اغوا کیے۔ دو کے ذریعے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا۔ ایک تیسرے جہاز کے ساتھ امریکی پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا جبکہ چوتھا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ ان حملوں میں کل تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آپریشن اینڈیورنگ فریڈم
ان حملوں نے امریکی حکومت کو افغانستان پر حملہ آور ہونے کا جواز فراہم کیا اور بش حکومت نے سات اکتوبر کو اسامہ بن لادن کے ممکنہ ٹھکانوں پر بمباری کا آغاز کیا۔ تیرہ نومبر 2001ء کو دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا گیا۔ طالبان نے پاک افغان سرحدی علاقوں میں پسپائی اختیار کر لی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پہلی بون کانفرنس
طالبان کے زوال کے بعد اقوام متحدہ کی چھتری تلے افغانستان پر چار بڑے نسلی گروپوں کے رہنما بون کے قریبی مقام پیٹرزبرگ کی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ شرکاء نے جمہوریت کے نفاذ کے لیے پانچ دسمبر 2001ء کو صدر حامد کرزئی کے تحت عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق کیا۔
تصویر: Getty Images
جرمن افواج کی روانگی
بائیس دسمبر 2001ء کو جرمن پارلیمان کی اکثریت نے اقوام متحدہ کے ’مشن فریڈم‘ میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔ انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کو مقامی حکومت کی تعمیر نو میں مدد اور سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کا کام سونپا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پہلے فوجی کی ہلاکت
چھ مارچ 2002ء کو ایک دو طرفہ لڑائی میں پہلا جرمن فوجی ہلاک ہوا۔ اس کے بعد جرمن فوجیوں کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ سات جون 2003ء کو کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس میں چار فوجی ہلاک اور دیگر انتیس زخمی ہوئے۔ جرمن فوجیوں پر یہ پہلا خودکش حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیا آئین
جنوری 2004ء کو افغانستان کے نئے جمہوری آئین کی منظوری دی گئی۔ 502 مندوبین نے صدارتی نظام کے تحت ’اسلامی جمہوریہ افغانستان‘ میں انتخابات کی راہ ہموار کی۔ نو اکتوبر 2004ء کو حامد کرزئی نے فتح کا جشن منایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
برلن کانفرنس
اکتیس مارچ 2004ء کو برلن کانفرنس کے دوران بین الاقوامی برادری نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 8.2 ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ جرمنی نے 80 ملین یورو دینے کا وعدہ کیا۔ اس کانفرنس میں منشیات کے خلاف جنگ اور ایساف دستوں کی مضبوطی کا اعلان بھی کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
لندن کانفرنس
اکتیس جنوری 2006ء کو لندن کانفرنس میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان کے لیے پانچ سالہ منصوبے اور 10.5 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد سکیورٹی کے نام پر متعدد کانفرنسوں کا انعقاد ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
قندوز کا فضائی حملہ
چار ستمبر 2009ء کو طالبان نے تیل کے بھرے دو ٹینکروں کو اغوا کیا۔ جرمن کرنل گیورگ کلائن نے فضائی حملے کے احکامات جاری کر دیے، جس کے نتیجے میں تقریبا ایک سو عام شہری مارے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن فوجیوں کا یہ سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔ شدید تنقید کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن صدر کا استعفیٰ
اکتیس مئی 2010ء کو افغانستان میں جرمن فوجیوں کے ساتھ ملاقات کے بعد واپسی پر جرمن صدر ہورسٹ کوہلر نے ایک متنازعہ انٹرویو دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جنگ جرمن اقتصادی مفادات کی وجہ سے لڑی جا رہی ہے۔ اس کے بعد ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور انہیں مستعفی ہونا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کابل کا سربراہی اجلاس
انیس جولائی 2010ء کو سکیورٹی کے سخت انتظامات کے تحت کابل میں نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ افغانستان کے غیر مستحکم حالات کے باوجود سن 2014ء کے بعد غیر ملکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارلیمانی انتخابات
اٹھارہ ستمبر 2010ء کو افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ کوئی بھی امیدوار واضح برتری حاصل نہ کر سکا اور فیصلہ صدر کرزئی کے حق میں ہوا۔
تصویر: picture alliance/dpa
اسامہ بن لادن کی ہلاکت
دو مئی 2011ء کو امریکا کی اسپیشل فورسز نے پاکستانی شہر ابیٹ آباد میں حملہ کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ امریکی صدر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس خفیہ آپریشن کی براہ راست نگرانی کرتے رہے۔ ہزاروں امریکیوں نے بن لادن کی ہلاکت کا جشن منایا۔
تصویر: The White House/Pete Souza/Getty Images
دوسری بون کانفرنس
جنگ کے دس برس بعد پانچ دسمبر 2011ء کو ایک دوسری بین لاقوامی بون کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں سن 2024ء تک افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس کے بدلے میں صدر کرزئی نے اصلاحات کرنے، کرپشن کے خاتمے اور جمہوریت کے استحکام جیسے وعدے کیے۔
تصویر: Getty Images
ذمہ داریوں کی منتقلی
اٹھارہ جون 2013ء کو صدر حامد کرزئی نے ملک بھر میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دن کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس نے اس اعلان کی خوشیوں ختم کر کے رکھ دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیٹو جنگی مشن کا اختتام
افغانستان میں نیٹو کے جنگی مشن کا اختتام ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی برادری مستقبل میں بھی افغانستان کو اربوں ڈالر بطور امداد فراہم کرے گی۔ لیکن افغانستان کے لیے آزادی اور خود مختاری کی طرف جانے والا یہ راستہ کانٹوں سے بھرپور ہے۔