ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے انتہا پسند طالبان کی طرف سے انکار کے بعد بھی اس بارے میں طالبان سے مذاکرات کرنے کا عندیہ دیا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد ترکی کابل کے ہوائی اڈے کا چارج سنبھال لے گا۔
اشتہار
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ وہ سخت گیر موقف رکھنے والے اسلام پسند طالبان گروہ کے ساتھ اس بارے میں مذاکرات کا منصوبہ بنا رہے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد کابل ایئر پورٹ کو فعال رکھنے کی تمام تر ذمہ داری ترکی سنبھال لے۔
اگرچہ طالبان کی طرف سے انقرہ کی اس پیشکش کو پہلے ہی رد کیا جا چُکا ہے، تب بھی ترک صدر نے' اپنی نیک خواہشات‘ کا اظہار کرتے ہوئے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اس بارے میں طالبان سے مذاکرات کریں گے۔
استنبول میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایردوآن کا کہنا تھا،'' اللہ کی رضا سے، ہم دیکھیں گے کہ طالبان کے ساتھ ہماری یہ بات چیت ہمیں کس رُخ لے جاتی ہے۔‘‘
کابل ہوائی اڈے کی اہمیت
ترکی امریکا کے دفاعی اہلکاروں کے ساتھ اپنی اس پیشکش کے بارے میں کہ انقرہ کابل ہوائی ڈے کو محفوظ بنانے اور اسے فعال بنانے کے لیے تمام تر مدد اور تعاون فراہم کرے، ایک عرصے سے مذاکرات کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ کابل ایئرپورٹ کے نظام کو محفوظ، مستحکم اور فعال رکھنے کا عمل جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں سفارتی موجودگی برقرار رکھنے کے تناظر میں کلیدی اہمیت کا حامل اقدام ہے، خاص طور سے ایک ایسے وقت میں جب عشروں سے افغان سر زمین پر موجود مغربی طاقتوں کے فوجیوں کے انخلا کا عمل حتمی طور پر مکمل ہونے والا ہے۔
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.
تصویر: Getty Images/AFP
7 تصاویر1 | 7
ترکی نے اپنے سینکڑوں فوجی افغانستان میں تعنیات کر رکھے ہیں تاہم ایک ترک سرکاری اہلکار نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ افغانستان میں موجود ترک فوجی 'جنگی فوج کا حصہ نہیں ہیں‘۔
انقرہ واشنگٹن بات چیت
ترک صدر ایردوآن اور امریکی صدر جو بائیڈن نے جون کے ماہ میں نیٹو سمٹ کے حاشیے پر پہلی براہ راست یا آمنے سامنے ملاقات میں اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
انقرہ اور واشنگٹن ترکی اور امریکا کی طرف سے نیٹو مشن کے لیے مالی اور رسد یا ذرائع نقل و حمل جیسے امور پر تبادلہ خیال کرتے آئے ہیں۔ اس امر کی تصدیق امریکا اور نیٹو اہلکاروں نے بھی کی ہے۔
طالبان کا انکار
گزشتہ ہفتے طالبان نے ترکی کی پیش کش کو رد کرتے ہوئے اسے 'قابل مذمت‘ قرار دیا تھا۔ عسکریت پسندوں کے اس گروپ نے کہا تھا، ''ہم کسی بھی غیر ملک کی فورسز کے اپنے وطن میں قیام کو، چاہے وہ کسی بھی بہانے سے کیا جائے، قبضہ تصور کرتے ہیں۔‘‘
ایردوآن نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ طالبان 'صحیح یا درست نقطہ نگاہ نہیں اپنا رہے ہیں‘۔ ترک صدر کا مزید کہنا تھا، ''ہماری نگاہ میں اس وقت طالبان کا نقطہ نظر یہ نہیں کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ رویہ کیسا ہے۔‘‘ ایردوآن نے باغی گروپ، طالبان سے اپنا قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ک م / ع ب (اے ایف پی)
امریکا کی رخصتی اور افغانستان میں بکھرا امریکی کاٹھ کباڑ
بگرام ایئر بیس قریب بیس برسوں تک امریکی فوج کا افغانستان میں ہیڈکوارٹرز رہا۔ اس کو رواں برس بہار میں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اب وہاں ٹنوں کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
تا حدِ نگاہ اسکریپ
امریکا کے افغانستان مشن کی سیاسی باقیات کا تعین وقت کرے گا لیکن اس کا بچا کھچا دھاتی اسکریپ اور کچرا ہے جو سارے افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ امریکا بگرام ایئر بیس کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کی بیسویں برسی پر خالی کر دے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
کچرا کہاں رکھا جائے؟
امریکی فوجی اپنے ہتھیار یا تو واپس لے جائیں گے یا مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ کر جائیں گے۔ اس میں زیادہ تر بیکار دھاتی کاٹھ کباڑ اور ضائع شدہ الیکٹرانک سامان شامل ہے۔ سن 2001 کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی بگرام ایئر بیس پر تعینات ہوئے۔ یہ بیس کابل سے ستر کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
ایک کا کاٹھ کباڑ دوسرے کے لیے قیمتی
بگرام بیس کے باہر جمع ہونے والا اسکریپ قسمت بنانے کے خواہش مند افراد کے لیے بہت اہم ہے۔ بے شمار افراد اس کاٹھ کباڑ میں سے مختلف اشیاء تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فوجی بوٹ وغیرہ۔ وہ ایسے سامان کو بیچ کر اپنے لیے پیسے حاصل بناتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
الیکٹرانک سامان کی تلاش
بگرام بیس کے باہر جمع اسکریپ کی بڑے ڈھیر میں سے لوگ الیکٹرانک سامان بھی ڈھونڈتے ہیں۔ ان میں سرکٹ بورڈ وغیرہ اہم ہیں۔ کچھ لوگ استعمال ہونے والی دھاتیں جیسا کہ تانبا وغیرہ کو بھی ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی تھوڑی مقدار میں سونا بھی مل جاتا ہے۔ امریکیوں کے لیے یہ کوڑا کرکٹ ہے لیکن افغان باشندوں کے لیے جو سالانہ محض پانچ سو یورو تک ہی کماتے ہیں، یہ واقعی ایک خزانہ ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
بگرام کس کے پاس جائے گا؟
بگرام کوہِ ہندوکش کے دامن میں ہے اور اس کی برسوں پرانی فوجی تاریخ ہے۔ سابقہ سوویت یونین کی فوج نے اس جگہ کو سن 1979 میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ افغان شہریوں کو خوف ہے کہ امریکی فوجیوں کی روانگی کے بعد یہ جگہ طالبان سنبھال لیں گے۔
تصویر: imago images
ایک پرخطر انخلا
غیر ملکی فوجیوں کا انخلا رواں برس پہلی مئی سے شروع ہے۔ ان کے پاس اسکریپ سنبھالنے کا وقت نہیں ایسے ہی بھاری ہتھیاروں کا معاملہ ہے۔ طالبان کے کسی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے اضافی فوجی ابھی بھی متعین ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد کے رکن اور پارٹنر 26 ممالک کے فوجی افغانستان میں تعینات رہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
خواتین بھی میدان میں
تصویر میں ایک لڑکی بگرام ایئر بیس کے باہر کاٹھ کباڑ سے ملنے والی دھاتوں کا ٹوکرا اٹھا کر جا رہی ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اس کام میں شریک ہیں۔ مشکل کام کے باوجود خواتین کو مالی فائدہ پہنچا ہے۔ یہ بالغ لڑکیاں اسکول بھی جاتی تھیں، اور اُن شعبوں میں بھی کام کرتی ہیں جو پہلے ممنوعہ تھے جیسے کہ عدالتیں اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
پیچھے رہ جانے والے لوگ
اس دھاتی اسکریپ کے ڈھیر کے آس پاس کئی اشیا بعض لوگوں کے لیے جذباتی وابستگی کی حامل بھی ہیں۔ اس بیس کے ارد گرد کئی بستیاں بھی آباد ہوئیں اور ان کی بقا بیس کے مکینوں پر تھی۔ اب بہت سے ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان گزر بسر کیسے کرے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
باقی کیا بچا؟
ہندوکش علاقے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بعد فوجی بوٹوں اور زنگ آلود تاروں کے علاوہ کیا باقی بچا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد افغانستان کے ساتھ پائیدار شراکت جاری رکھنے کا عندیہ ضرور دیا۔ اب لاکھوں افغان افراد جو بائیڈن کو اپنے وعدے کو وفا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔