1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کابل طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی پر رضامند‘

7 اپریل 2018

پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ افغانستان نے طالبان کے ساتھ معطل شدہ امن مذاکرات کو بحال کرنے کی پاکستانی پیشکش قبول کر لی ہے۔ انہوں نے یہ بیان اپنے دورہ افغانستان کے ایک دن بعد ہفتے کو دیا۔

Treffen Shahid Khaqan Abbasi und Ashraf Ghani
تصویر: Prime Minister's Office Pakistan

خبر رساں ادارے اے پی نے پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے بتایا ہے کہ کابل حکومت طالبان کے ساتھ معطل شدہ مذاکرات کی بحالی پر رضا مند ہو گئی ہے۔ ہفتے کے دن اسلام آباد میں انہوں نے کہا کہ سترہ سالہ افغان تنازعے کا حل جنگ سے نہیں ہو سکتا۔ عباسی نے جمعے کے دن اپنے دورہ افغانستان کے دوران کابل میں صدر اشرف غنی سے ملاقات کی تھی۔

پاکستان نے فضائی کارروائی کی، افغان حکومت کا الزام

وسطی ایشیائی ریاستیں طالبان کے ساتھ امن کیوں چاہتی ہیں؟

کیا افغانستان میں امن و امان پاکستانی تعاون کے بغیر ممکن ہے؟

پاکستان نے طالبان کے بارے میں افغان صدر کے اس بیان کی تعریف کی ہے، جس میں اشرف غنی نے اس بنیاد پرست مذہبی گروہ کو بطور سیاسی پارٹی تسلیم کرنے کی پیشکش کی ہے۔

طالبان نے اشرف غنی کے اس بیان پر فوری طور پر کوئی باضابطہ ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم طالبان نے اپنے اس دیرینہ مطالبے کو دہرایا ہے کہ کابل حکومت سے امن مذاکرات سے قبل وہ واشنگٹن حکومت سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان نے سن دو ہزار پندرہ میں کابل حکومت اور طالبان کے مابین پہلی مرتبہ براہ راست امن مذاکرات کی میزبانی کی تھی تاہم کابل کی طرف سے طالبان کے بانی رہنما ملا عمر کی ہلاکت کی خبر کے افشاء کے بعد یہ مذاکراتی سلسلہ تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔ ناقدین کے خیال میں افغان طالبان اور کابل حکومت کے مابین امن مذاکرات میں اسلام آباد حکومت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

جمعے کے دن پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کابل میں افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ دونوں ہمسایہ ممالک علاقائی سلامتی کو یقینی بنانے کی خاطر مل کر کام کریں گے۔

یہ دونوں ممالک اکثر ایک دوسرے پر یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ ان کے سرحدی علاقوں میں فعال جنگجو گروہ سرحد پار سے کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

اشرف غنی اور شاہد خاقان عباسی کی یہ ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی، جب ایک روز قبل ہی کابل نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی فضائیہ نے کنڑ صوبے میں ایک کارروائی کی تھی۔ تاہم پاکستان نے اس الزام کو مسترد کر دیا تھا۔ اسلام آباد کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ کارروائی پاکستان کی قومی سرحدوں کے اندر کی گئی تھی۔

افغانستان میں مغربی دنیا کی حمایت یافتہ ملکی حکومت کا الزام ہے کہ افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں جنگجوؤں کے ٹھکانے موجود ہیں، جو افغانستان میں سرحد پار سے کارروائی کرتے ہوئے حکومتی اور غیر ملکی اہداف کو نشانہ بناتے ہیں۔

پاکستان البتہ ان الزامات کو رد کرتا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ کابل حکومت افغانستان میں موجود پاکستانی طالبان جنگجوؤں کے خلاف مناسب کارروائی نہیں کر رہی، جو وقتاﹰ فوقتاﹰ پاکستان میں دہشت گردانہ حملے کرتے رہتے ہیں۔

ع ب/ م م / اے پی

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں