کابل محفوظ نہیں، ملک بدریاں فوری روکی جائیں، ایمنسٹی
10 ستمبر 2018
برلن حکومت گیارہ ستمبر کے روز پناہ کے مسترد افغان درخواست گزاروں کو ایک خصوصی پرواز کے ذریعے واپس بھیج رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جرمنی سے یہ پرواز منسوخ کرنے اور افغان مہاجرین کی ملک بدری فوری روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اشتہار
جرمن صوبہ باویریا کے حکام کے اس ویک اینڈ پر بتایا تھا کہ منگل گیارہ ستمبر کے روز سیاسی پناہ کے مسترد افغان درخواست گزاروں کو ایک خصوصی پرواز کے ذریعے اجتماعی طور پر افغانستان واپس بھیجا جائے گا۔ یہ پرواز ممکنہ طور پر میونخ کے ہوائی اڈے سے کل شام ساڑھے سات بجے پرواز کرے گی۔ انسانی حقوق اور مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم مقامی اور عالمی تنظیموں نے اس فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جرمن شاخ سے وابستہ مہاجرت کے امور کے ماہر فرانزسکا ویلمار نے برلن حکومت سے افغان مہاجرین کی ملک بدری روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا، ’’کل صبح کے لیے طے کردہ اجتماعی ملک بدری کی پرواز کو فوری طور پر منسوخ کر دیا جانا چاہیے۔‘‘
انسانی حقوق کے لیے سرگرم اس عالمی تنظیم کی جرمن شاخ سے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا، ’’افغان دارالحکومت کابل کو بھی، جہاں جرمنی سے آنے والی تمام پروازیں اترتی ہیں، اب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت تک نے غیر محفوظ قرار دے دیا ہے۔ مارکیٹ، اسکول، دفتر یا پھر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہوئے ہر روز کابل میں لوگ کبھی سڑک کنارے نصب بموں اور کبھی خودکش حملوں میں مارے جا رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی کھیل دیکھنے کے لیے جمع لوگوں پر کیے گئے حملے میں کئی افراد ہلاک ہو گئے تھے۔‘‘
جرمنی: سات ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ملک بدری طے
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو لازمی ملک بدر کیا جانا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس صوبے سے کتنے پاکستانی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
باڈن ورٹمبرگ
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
باویریا
جرمن صوبے باویریا میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تئیس ہزار سات سو بنتی ہے، جنہیں جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں 1280 پاکستانی بھی شامل ہیں، جو مجموعی تعداد کا 5.4 فیصد ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Anspach
برلن
وفاقی جرمن دارالحکومت کو شہری ریاست کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ برلن سے قریب سترہ ہزار افراد کو لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے جن میں تین سو سے زائد پاکستانی شہری شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
برانڈنبرگ
اس جرمن صوبے میں ایسے غیرملکیوں کی تعداد قریب سات ہزار بنتی ہے، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے سات فیصد (471) کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Oliver Mehlis
ہیسے
وفاقی صوبے ہیسے سے بھی قریب گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن میں سے 1178 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے سے بھی 71 ہزار غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں افغان شہریوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ پاکستانی شہری اس حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں، لیکن ان کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔
تصویر: imago/epa/S. Backhaus
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
رائن لینڈ پلاٹینیٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں پانچ سو سے زائد پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
سیکسنی
جرمن صوبے سیکسنی میں ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی ملک بدری طے ہے۔ ان میں سے 954 پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دیگر صوبے
مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ملک بدری طے ہے۔ دیگر آٹھ جرمن وفاقی ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، اس لیے ان کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
9 تصاویر1 | 9
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت (یو این ایچ سی آر) نے تیس اگست کے روز جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ افغان دارالحکومت بھی سکیورٹی اور انسانی حقوق کی بگڑتی صورت حال کے سبب اب ’اندرون ملک ہجرت‘ کے لیے بھی غیر محفوظ بن چکا ہے۔ اس رپورٹ میں اقوام متحدہ نے کابل کو عام شہریوں کے لیے بھی خطرناک قرار دیا تھا۔
ویلمار کے مطابق دسمبر 2016 سے اب تک جرمنی سے افغان مہاجرین کی پندرہ مرتبہ اجتماعی ملک بدری کی خصوصی پروازیں چلائی جا چکی ہیں۔ ان پروازوں میں 349 افغان شہریوں کو جرمنی سے ملک بدر کر کے کابل پہنچایا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے بعد فن لینڈ کی حکومت نے بھی افغان مہاجرین کی ملک بدری پر پابندی عائد کر دی ہے۔ فرانزسکا ویلمار نے برلن حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی اقوام متحدہ کی رپورٹ کی روشنی میں فن لینڈ کی طرح افغان شہریوں کی ملک بدری پر پابندی عائد کرے۔
حالیہ برسوں کے دوران افغانستان بھر میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے سبب شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس افغانستان میں اٹھارہ سو سے زائد عام شہری ہلاک یا زخمی ہوئے تھے اور رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران بھی دہشت گردانہ حملوں میں قریب ایک ہزار افغان شہری ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
ش ح / ا ا (نیوز ایجنسیاں)
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔